کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 34
کے حصول کیلئے جائز ذرائع کی تلقین کرتا ہے۔ مغربی جمہوریت کے سحر میں مبتلا سیکولر دانشور اسلام اور جمہوریت کے درمیان شورائیت کی قدرِ مشترک رکھتے ہوئے جمہوریت کو عین اسلام تصور کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں ترقی پسند اسلام صرف وہی ہے جس میں مغربی جمہوریت کی تائید کا پہلو نکلتا ہو۔ وہ حاکمیت ِجمہور اور حاکمیت ِالٰہیہ کے بنیادی فرق اور اس جیسے بہت سے امور کو فراموش کردیتے ہیں ، مختصر الفاظ میں ان کے نزدیک ترقی پسند اسلام بس وہی ہے جس میں اشتراکیت اور جمہوریت کے ساتھ فکری اشتراک پایا جاتا ہو۔
اگر کوئی بات اسلام میں تو ہے مگر اشتراکیت یا مغربی جمہوریت سے متصادم ہے تو پھر ایسا ’اسلام‘ انہیں قبول نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جنت او رجہنم کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے، مگر ہمارے ’ترقی پسند‘ مسلمان جہنم، یا عذابِ قبر کاذکر سننے کو قطعاً تیار نہیں ہیں ۔ ان کے خیال میں مولوی جہنم کا ذکر کرکے لوگوں کو ڈرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ خوف کے مارے ان کی مالی معاونت کریں ۔ ’ترقی پسند اسلام‘ میں صرف معاملات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتاہے، عبادات کی تکرار ان کے خیال میں رجعت پسندی ہے۔ آج کل ترقی پسندوں نے ’انسان دوستی‘ کا بہت واویلا مچا رکھا ہے۔ انسان دوستی کا فلسفہ درحقیقت انسان پرستی کا دوسرا نام ہے۔ مغرب میں اس نظریہ کو خدا بیزار فلسفیوں نے متعارف کرایا۔ ان کا خیال تھا کہ انسان کو خدا کا ذکر چھوڑ کر اپنی سرگرمیوں کا محور و مرکز بس ’انسان‘ کو ہی سمجھنا چاہئے۔ ہیومن ازم درحقیقت ایک ملحدانہ نظریہ ہے مگر ہمارے ترقی پسند اسے ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ اسلام میں ’جہاد‘ کو بھی بے حد اہمیت حاصل ہے، مگر ترقی پسند مسلمان جہاد کو ’بنیادپرستی ‘کا مظہر سمجھتے ہیں ۔اسلام میں گستاخِ رسول کی سزا موت ہے مگر ’ترقی پسند اسلام‘ کے پجاری قانونِ توہین رسالت کو انسانی حقوق کے منافی سمجھتے ہیں ۔ اسلام عورتوں کو گھر بیٹھنے اور حجاب اپنانے کی ہدایت کرتا ہے مگر ’ترقی پسند مسلمانوں ‘ کی ترقی پسندی کا اصلی نصب العین ہی یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ لایا جائے۔ اسلام سود خوری کو اللہ سے جنگ قرار دیتاہے مگر ’ترقی پسند مسلمان‘ سود کے بغیر امور ریاست کی انجام دہی کو ناقابل عمل سمجھتے ہیں ۔ اسلام موسیقی، رقص و سرور ، بت گری اور مخلوط مجالس سے منع کرتا ہے۔مگر ترقی پسند مسلمان اسے فنونِ لطیفہ اور آرٹ کا درجہ دیتے ہیں ۔ یہ فرق ہمیں چند اُمور میں نہیں بلکہ تمام بنیادی اُمور میں دکھائی دیتا ہے۔ عام مسلمانوں کے ’اسلام‘ اور ترقی پسندوں کے ’اسلام‘ میں ہر اعتبار سے فرق ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ اور سیکولر دانشور ’ترقی پسند اسلام‘ کی بات کرتے ہیں ، جبکہ انہیں چاہئے کہ وہ ’اسلام پسند ترقی‘ کے تصور کو آگے بڑھائیں یعنی وہ ترقی ایسی ہو جس میں اسلام سے بھی ہمیں ہاتھ نہ دھونے پڑیں اور اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہم اس کو حاصل کرسکیں ۔ وہ ترقی ایسی ہوجس میں دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی پاسداری کی ضمانت بھی دی جاسکتی ہو۔ روحانی اور ا خلاقی زوال سے دو چار کرنے والی تحریک ’ترقی پسندانہ‘ ہو تو ہو، اسے ’اسلامی‘ نہیں کہا جاسکتا ۔ (محمدعطاء اللہ صدیقی)
[1] کنزالعمال فی سنن الا قوال والافعال(الخيانة) جلدسوم، صفحہ ۴۶۸، حدیث نمبر ۷۴۶۶
[2] ابوداود، کتاب الجہاد، باب عقوبة الغال، جلد سوم، صفحہ ۶۹، حدیث نمبر ۲۷۱۳۔۲۷۱۵
[3] ایضا ً، حدیث نمبر ۲۷۱۴
[4] ایضا ً، حدیث نمبر ۲۷۱۵
[5] ایضا ً،…؟