کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 33
مفہوم کے بارے میں بات کیجئے، ان کے نزدیک ترقی جدیدیت کو اپنانے ہی میں ہے۔ وہ ’ماڈرن‘ ہونے کو ہی ترقی یافتہ سمجھتی ہیں ۔ آج کل کی این جی اوز کی بیگمات، پاکستان میں جن کی قیادت عاصمہ جہانگیر کر رہی ہیں ، کے نزدیک مرد کی ’غلامی‘ سے مکمل نجات یعنی مجرد زندگی ہی ترقی کی معراج ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’ترقی‘ سے مراد صرف مادّی ترقی ہے جیساکہ ترقی کا مقبول ترین یونیورسل تصور آج کل پھیلا ہوا ہے؟ اس سوال کا براہِ راست تعلق ایک اور سوال سے بھی ہے یعنی انسان کا مقصد حیات کیا ہے؟ یا اس کا مقصد تخلیق کیا ہے؟ دراصل ترقی کے بارے میں تمام تصورات کی بنیاد ہی اس سوال کے جواب پر منحصر ہے۔ جدید سیکولر مغرب نے گذشتہ چار صدیوں میں جس مقصد حیات کو آگے بڑھایا ہے، اس کا دائرہ کار محض اسی دنیاوی زندگی تک محدود ہے، حیات بعد الممات کے بارے میں ان کا اعتقاد ہی ختم ہوگیا ہے، لہٰذا وہ اخروی زندگی کی بہتری کے متعلق سوچنے کا اپنے آپ کو مکلف ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ روش غیرمسلموں کی ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔
( الانعام: ۲۹)
انسان جسم اور روح کا مرکب ہے، مگر ان کی تگ ودو کا اصل محور انسان کے جسمانی تقاضوں کی تکمیل ہی ہے، روح اور روحانی معاملات کے متعلق وہ سنجیدگی سے سو چنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ پورا معاشرہ اپنے فکری منہج اور عقلی خدوخال کے اعتبار سے ایک خالصتا ً مادی معاشرہ ہے۔ اگرچہ وہاں اب بھی مذہب کی مسخ شدہ شکلیں موجود ہیں ، لیکن وہ مادّیت ہی کے تابع ہیں ، یہی وجہ ہے کہ چرچ مغربی معاشرے کو اپنے اُصولوں کے مطابق نہ ڈھال سکنے کے بعد اپنے آپ کو سیکولر سماج کے مطابق ڈھالنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مغربی سماج کے اس مقصد ِحیات کو اپنا نصب العین قرار دے سکتے ہیں ؟ اگر ہم بالفرض اسے اپنا مقصود بنا لیتے ہیں تو پھر ہمارے اسلام سے تعلق کی موجودہ بنیادیں کیا قائم رہ سکیں گی؟ او رپھر ایک اہم سوال، کیا ہم مادی ترقی کے حصول کے لئے اسلام اور اسلام کے روشن اصولوں کو قربان کرسکتے ہیں ؟
ہمارے آج کل کے روشن خیال دانشور اسلام کو اس وقت تک قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں جب تک کہ اس کے ساتھ ’ترقی پسند‘ کا لاحقہ نہ لگا ہو۔ ان کے لئے محض ’مسلمان‘ کہلانا کافی نہیں ہے بلکہ وہ ترقی پسند مسلمان کہلانا پسند کرتے ہیں ۔ ’ترقی پسند اسلام ‘ کی واضح تعریف کوئی بھی متعین نہیں کرتا۔مگر سیکولر دانشوروں کی گفتارِ متواترہ سے ترقی پسند اسلام کا جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد ایسا اسلام ہے جس میں سماجی انصاف، رواداری اور روشن خیالی کی اعلیٰ اقدار کا اظہار ہوتا ہے۔ اشتراکی دانشور جس ’سماجی انصاف‘ کا ڈھندوڑا پیٹتے ہیں ، اس کی جزئیات اور باریکیوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مرجع و مصدر مارکسزم ہے نہ کہ اسلام۔ اشتراکی سماجی انصاف جس معاشی مساوات کا تصور پیش کرتا ہے، اس میں نجی ملکیت کے خاتمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ اسلام نجی ملکیت کے خاتمہ کا قائل نہیں ہے، البتہ اس
[1] ترمذی، کتاب السیر، باب ماجاء فی الغلول، حدیث نمبر ۱۵۷۲
[2] موٴطا امام مالک، باب ماجاء فی الغلول، جلد اول، صفحہ ۳۴۵
[3] ایضا ً، جلد اول، صفحہ ۳۴۶
[4] ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب النبی عن الستر علی من غل، ۳/۷۰، حدیث ۲۷۱۶، (مکتبہ عصریہ، مصر)