کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 32
تحریک تو نظر نہیں آتی، البتہ ’ترقی پسندی‘ کا ڈھنڈورا خوب پیٹا جارہا ہے۔ ہر سیکولر، اشتراکی اور مذہب بیزار ترقی پسندی کے بخار میں مبتلا نظر آتاہے۔ شکست خوردہ اشتراکیوں کے وہ نام نہاد انقلابی جھتے جو اٹھتے بیٹھتے امریکہ کو گالیاں دیتے تھے، آج انسانی حقوق کی امریکی ٹرین کی اگلی بوگی پرسوار دکھائی دیتے ہیں ۔ پاکستان کے انسانی حقوق کے انتھک منادوں میں اکثریت انہی بائیں بازو کے افراد کی ہے۔ ان ’انقلابیوں ‘ نے ایک دفعہ پھر ’ترقی پسندی‘ کوقبضہ قدرت میں لے لیا ہے۔ یہ مولویوں کو مذہب کا ٹھیکیدار ہونے کا طعنہ دیتے تھے، آج یہ خود ’ترقی پسندی‘کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ۔ اگر کسی نے اپنے آپ کو ترقی پسند کہلوانا ہو، تو ان جعل سازوں سے اسے مہر لگوانے کو کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں جو چند ایک الفاظ مجلسی زندگی میں بے حد کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ، ان میں لفظ ’ترقی‘بے حد اہمیت اختیارکرچکاہے۔ جدید نظام معیشت اور ماہرین معاشیات کی اصطلاحات میں ’ترقی‘ کی اصطلاح اہم ترین ہے۔ مختصراً اگر یہ کہا جائے کہ آج انسانی جدوجہد کا محور و مرکز بلکہ مقصد ِوحید ہی ’ترقی‘ ہے۔ مگر اسے علمی اعتبار سے ایک المیہ کہنا چاہئے کہ اس قدر اہم اصطلاح کا نہ ابھی تک صحیح مفہوم متعین کیا جاسکا ہے، نہ ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد ’ترقی‘ کے متعلق یکساں ادراک رکھتے ہیں ۔ اشتراکی فلسفہ پر جان چھڑکنے والوں سے آپ استفسار کیجئے کہ ان کے نزدیک ترقی کا مطلب کیا ہے؟ وہ تاریخ کی مادّی تعبیرات کی بھول بھلیوں سے گذرتے ہوئے بالآخر ’ مساواتِ شکم‘ پر ترقی کی تان توڑیں گے۔ سرمایہ دارانہ مغرب کے ماحول میں پروردہ ایک شخص زندگی کے مادّی پہلو میں بہتری، معیاراتِ زندگی اور سہولتوں میں اضافہ، اور زیادہ سے زیادہ جدید سائنسی اکتشافات اور ان کے معاشرتی استعمالات کو ہی تمام تر ’ترقی‘ قرار دے گا۔ آج کل انسانی حقوق اور انسانی ترقی کے مابین نئے رشتے تلاش کئے جارہے ہیں ۔ ایک انسانی حقوق کا علمبردار فرد کی آزادیوں کے پیمانے سے ترقی کا مفہوم سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک ترقی یافتہ سماج وہی ہے جہاں ایک فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی ٴ ضمیر ، آزادی ٴ اظہار اور آزادی ٴانجمن سازی کے حقوق میسر ہیں ۔ ایشیا بالخصوص مسلم ممالک میں مسلک ِتصوف پر یقین رکھنے والوں کے نزدیک مادّی ترقی روح کی تباہی پر منتج ہوتی ہے، ان کا منتہاے مقصود صرف ان کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق روحانی ترقی ہے۔ ایک دیہات میں رہنے والا شخص ترقی کا جو مفہوم سمجھتا ہے، شہری تمدن کے مزے اڑانے والا شخص شاید ہی اس سے اتفاق کرسکے۔ صنعتی معاشرے میں ایک مزدور اور صنعت کار کے ترقی کے نصب العین میں واضح فرق ہے۔ایک غریب آدمی گھر، گاڑی، کچھ جائیداد، اچھی خوراک، اچھے رہن سہن کو ہی ترقی کی معراج گردانتا ہے، مگر ایک دولت مند جسے یہ سب کچھ وراثت میں ملا ہے، اس کے نزدیک ان اشیا کی ذرّہ برابر قدرومنزلت نہیں ہے، اس کے ترقی کے معیارات بالکل الگ ہیں ۔ جدیدخواتین سے ترقی کے
[1] مسلم، کتاب الامارة، باب غلظ تحریم الغلول (اس جگہ اس موضوع کی چار احادیث موجود ہیں ) ، جلد سوم، صفحہ ۱۴۶۱، حدیث نمبر ۱۸۳۱ [2] ابوداؤد، کتاب الجهاد، باب فی تعظيم الغلول، جلد سوم، صفحہ ۶۸، حدیث نمبر ۲۷۱۱،(المکتبة العصریہ ، مصر) [3] ایضا ً، کتاب الجهاد، باب فی الرجل، ينتفع من الغنيمة شيئ جلد سوم، صفحہ ۶۷، حدیث نمبر ۲۷۰۸