کتاب: محدث شمارہ 252 - صفحہ 31
کتاب: محدث شمارہ 252 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکرونظر ترقی پسند اسلام یا اسلام پسند ترقی ؟ تعلیم کامعاملہ ہو یا صحت ِعامہ کی بات، سائنسی ترقی کا سوال ہو یا معاشی خوشحالی کی بات ہو، پسماندگی اور بدحالی ہرجگہ ہمارے سامنے آتی ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا تعارف ایک پسماندہ قوم کے طور پر موجود ہے۔البتہ ایک شعبہ ایسا ہے جس میں ہم نے ’ہوش ربا‘ ترقی کی ہے، وہ ہے ’ترقی پسندی‘۔ ہمارا طرہٴ امتیاز یہ ہے کہ ہم ترقی کرنے کی بجائے’ترقی پسندی‘ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ ہمارے لئے یہی امر ہی راحت القلوب ہے کہ ہم ترقی پسند ہیں ۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کے دانشوروں کو بڑے فخر سے بتا سکتے ہیں کہ ترقی کے معاملے میں ہم ان سے بہت پیچھے سہی، مگر ’ترقی پسندی‘ میں ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے کندھے سے کندھا ملا کر چل سکتے ہیں ۔ ہمارے روشن خیال دانشور پوری قوم کے ’شکریہ‘ کے مستحق ہیں ، کہ بالآخر انہوں نے اپنی شبانہ روز ابلاغی کاوشوں اور فکری محنتوں سے اس قوم کے اندر ’ترقی پسندانہ‘ جذبات کو ’فروغ‘ دے کر اسے احساسِ کمتری کی ’ذلت آمیز‘ منزل سے باہر نکالا ہے۔ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں برصغیر پاک و ہند میں مارکسی نظریات کی یلغار کے نتیجہ میں ادیبوں کا ایک گروہ وجود میں آیا جس نے روایت شکنی کو اپنا ’دین و ایمان‘ سمجھ لیا۔ الحاد پرست ادیبوں کے اس طائفہ نے جس تحریک کی بنیاد رکھی، وہ ’ترقی پسند تحریک‘ کہلائی او ریہ خود اپنے آپ کو ’ترقی پسند‘ کہلانے لگے۔ مذہبی طبقہ ان کی جارحانہ تنقید اور استہزا کا تختہٴ مشق بن گیا۔ مذہبی طبقہ سے ان کی منافرت بالآخر مذہب سے متعلق ہر فکر و عمل تک پھیل گئی۔ مذہب سے وابستہ ہربات ان کے نزدیک ’رجعت پسندی‘ کہلائی۔ مارکسی فکر والے ان دانشوروں کی زبانیں انگارے برساتی تھیں ، غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے جو ترقی پسند ادیبوں کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا، اس کا نام ’انگارے‘ تھا۔ ان’انگاروں ‘کی تپش نے دین و ایمان ، شرم و حیا اور روحانی اقدار کے گلستان کوکافی متاثر کیا۔ مذہب بیزاری اور الحاد پرستی کے جذبات کو اس تحریک نے پروان چڑھایا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ایوب خانی آمریت کے دوران ان اشتراکی ترقی پسندوں نے وہ رسوخ حاصل کیا کہ اچھے خاصے دین دار ادیب اپنی دینداری کو چھپاتے پھر رہے تھے کہ کہیں ان پر رجعت پسندی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں جب اشتراکی نظریہ عالمی منظر سے روپوش ہونے لگا، تو پاکستان میں بھی ترقی پسند ادب کی تحریک کو زوال آگیا۔ اب کوئی ترقی پسند ادبی
[1] ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور [2] مقالاتِ مبارک پوری، (ص: ۲۶)