کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 9
وَإَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَاُوْلٰٓئِكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (مائده)
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔
یہ ہے وہ تعیین جو قرآنِ مجید نے ’ظالمین‘ کی فرمائی ہے۔ پس ایسے لوگ قیادت کے اہل قرار نہیں دیئے جا سکتے اور اسی لئے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا کہ:
لَا یَنَالُ عَھْدِیْ الظّٰلِمِیْنَ کہ میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا۔
خواہ وہ اولادِ ابراہیمی ہی سے کیوں نہ تعلق رکھتے ہوں۔
یہ لوگ بھی نا اہل ہیں:
ظالمین کے علاوہ بھی قرآنِ مجید نے بعض لوگوں کی قیادت کی واضح نفی فرمائی ہے۔ چنانچہ صاف الفاظ میں فرمایا:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَه عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاهُ وَكَانَ اَمْره فُرُطًا
کہ ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنے نفس کا غلام ہو رہا اور جس کے کام حد سے گزرے ہوئے ہو گئے۔ (الکہف)
امام ماوردی (ف 45ھ) نے لکھا ہے کہ:
’’ملک کا سربراہ اپنی غیر معتدل خواہشات کا غلام ہو جائے اور اپنے شہوانی جذبات سے مغلوب ہو کر کھلم کھلا شرعی پابندیوں کی خلاف ورزی کرے۔ ایسی صورت میں کوئی شخص نہ تو امام منتخب ہو سکتا ہے اور نہ بطور سیاسی سربراہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکتا ہے۔‘‘
ان کے الفاظ یہ ہیں:
واما الجرح في دالته وھو الفسق فھو علٰي ضربين، احدھما ما تابع فيه الشھوة والثاني ما تعلق فيه بشبھته، فاما الاول منھما فمتعلق بافعال الجوارح وھو ارتكابه للمحورات واقدامه علي المنكرات تحكما للشھوة انقياداً للھوي فھذا فسق يمنع من انعقاد الامامة ون استدامتھا (الاحكام ص 15 السلطانیہ)
سورۃ الشعراء میں فرمایا: