کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 7
مدعی ہے، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آج آپ کے سامنے اسلام کا معیارِ قیادت بھی پیش کر دیا جائے، تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ ملکی دستور کی تدوین میں جو شے سب سے اہم اور بنیادی تھی، نظر انداز بھی اسی کو کیا جا رہا ہے۔ ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس کو ملکی دستور میں مناسب آئینی تحفظ دلائے تاکہ پورا عالمِ اسلام اناڑیوں کا تختۂ مشق بننے سے بچ سکے۔
اسلام کا معیارِ قیادت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب امت کی امامت عطا ہوئی تو اس سرفرازی اور دینِ الٰہی کو دیکھ کر جھوم اُٹھے اور بولے:
وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ؟ (الٰہی!) اور میری اولاد؟
قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِيْ الظّٰلِمِيْنَ (البقره)
جواب دیا، جو ظالم ہیں وہ میرے اس عہد میں داخل نہیں ہیں۔
گویا ظالموں (نا اہلوں) سے میرا کوئی وعدہ اس لئے نہیں کہ وہ اسلام کے معیارِ قیادت پر پورے نہیں اترتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’ظالمین‘ کے زمرے میں کون کون داخل ہیں؟ اگر قرآن مجید ہی کی روشنی میں ’ظالمین‘ کی تعیین کر لی جائے تو یہ امر محتاجِ وضاحت نہ رہے تا کہ قوم کی قیادت کا اہل کون ہے اور نا اہل کون؟
ظالم قرآن کی اپنی اصطلاح ہے اور جو اردو کے لفظی مفہوم سے زیادہ وسیع اور جامع ہے۔ خدا کے نزدیک مشرک بھی ظالم ہے۔
اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان: ع ۲) کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
جو حدود کا لحاظ نہیں کرتے، وہ بھی ظالم ہیں:
وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه (طلاق: ۱)
کہ جس نے اللہ کی حدوں سے باہر قدم رکھا اس نے اپنی ذات پر ظلم کیا۔
اپنی دولت اور دھن کے نشہ میں دھت اور مسرف بھی ظالم ہیں:
وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْهِ (پ۱۲، ھود، ع۱۰)
یعنی جن لوگوں نے ظلم کیا تھا وہ تو ان ہی دنیوی لذات کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو