کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 6
قرآن مجید میں ہے:
یُؤْتِیْ الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّؤْتِيْ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا الخ (البقره)
کہ اللہ جس کو چاہتا ہے (بات کی) سمجھ دیتا ہے اور جس کو (یہ) سمجھ دی گئی، اس نے یقیناً بڑی دولت پائی اور نصیحت بھی وہی مانتے ہیں جو سمجھدار ہیں۔
گویا معلوم ہوا کہ حکمتِ عملی کے سلسلہ کی سوجھ بوجھ اہلیت کا ایک سرٹیفکیٹ بھی ہے، جو اس سے عاری ہیں وہ اہل نہیں۔ اسی طرح جو اپنے دائرہ اثر میں ’’خیر خواہی کے جذبہ‘‘ سے دامن تہی رکھتا ہے وہ بھی ملتِ اسلامیہ کی سیاسی سربراہی کا اہل نہیں رہتا۔ کیونکہ اس سے مقصد ہی حصولِ خیر و برکت ہے اور اگر کوئی قائد اس سے عاری ہے تو ’’خیرِ کثیر‘‘ سے اس کی اپنی جھولی خالی ہے وہ دوسروں کو کیا دے گا؟
قرآنِ حکیم نے نصیحت اور حکمتِ عملی کے مجموعہ کو یوں بیان فرمایا ہے:
اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤْدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰي اَھْلِھَا وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ (سوره نساء)
یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ’’امانتیں‘‘ ان کے حقداروں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو انصاف سے کرو۔
حقوق حقداروں کے حوالے کرنا اور پوری دیانتداری کے ساتھ سپرد کرنا، بس یہی اسلامی سیاست ہے۔
الغرض: سیاست کی وادیٔ سینا میں قدم رکھنے کے لئے یدِ بیضا اور ضربِ کلیمی کے اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے، یہ کاروبار نہیں، خدا کی عبادت ہے اور خلقِ خدا کی خدمت! ہر بو الہوس اس کا اہل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندگانِ خدا کو ہانکنا نہیں، لے کر چلنا ہے، خدا کو بہلانا نہیں، اس کے حضور سچی عبودیت کا ہدیہ پیش کرنا ہے۔ جہاں عوام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خیر خواہ حکمرانوں کا استحصال نہ کریں بلکہ ان کو اپنا تعاون پیش کریں وہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ عوام، حکمرانوں کی ضیافتِ طبع کی مایہ نہیں، قوم کی امانت ہیں اور جو سیاسی سربراہ اس احساس، شعور، دل سوزی اور اخلاص کی متاعِ گراں مایہ سے محروم ہیں، وہ ملتِ اسلامیہ کی قیادت کے اہل قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
ملتِ اسلامیہ کی قیادت بڑے جان جوکھوں کا کام ہے مگر افسوس! ہر بو الہوس آج اسکا