کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 5
والحاكم والسلطان ان يعامل كل منھم قومه ورعاياه كذا یعنی ایسا علم کہ جس کی بدولت اپنے باہمی مصالح اور بقاء کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جا سکے کہ قوم اپنے نبی، حاکم اور بادشاہ سے کس طرح معاملہ کرے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی قوم او رعایا کے ساتھ یوں (اس علم کی روشنی میں) سلوک کرے۔ (دستور العلماء لعبد النبی الاحمد نگری) ان احادیث کی تائید آیات الٰہی سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد اس طرح منقول ہے: اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ (الاعراف) کہ میں تم تک اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا دیانتدار خیر خواہ ہوں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا: لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النَّاصِحِيْنَ کہ میں نے تم تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور جو خیر خواہی کرنی تھی کر دی، مگر (افسوس) سچے خیر خواہوں سے تمہیں کوئی انس نہیں۔ سورۂ اعراف ہی میں حضرت نوح علیہ السلام کا ارشاد بھی موجود ہے: اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَکُمْ کہ میں تم تک اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے معاملہ میں خیر خواہی کر رہا ہوں۔ یہ جذبۂ خیر خواہی اندھے کی لٹھ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک حکمت عملی ہے جس کے ذریعے ’’جذبۂ خیر خواہی‘‘ کا اتمام ہوتا ہے اور اس کا فیضان عام اور بے لاگ ہو جاتا ہے۔ حکمت کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: ورجل اٰتاہ اللہ الحكمة فھو يقضي بھا ويعلمھا (بخاری عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) کہ (قابل رشک دوسرا) وہ آدمی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’فراستِ مومنانہ‘‘ اور ’’عدلِ حکیمانہ‘‘ کی دولت بخشی، پھر وہ اس کے مطابق نظام چلاتا اور تعلیم دیتا ہے۔