کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 44
کے لئے ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو گی اور تاریخی ہماری اس کوتاہی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہی احساس ہے‘ جس کی وجہ سے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر نے، جو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نمائندہ حکومت ہونے کی وجہ سے ایک نظریاتی حکومت ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال پر قومی سطح پر غور و خوض کرنے کی غرض سے آزاد کشمیر میں ایک ’’آل پاکستان کشمیر کانفرنس‘‘ منعقد کی جائے اور اس میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے زعما، ممتاز علمائے کرام اور ماہرینِ قانون، طالب علم رہنماؤں، صحافیوں، دانش وروں اور مزدور لیڈروں کو دعوتِ شرکت دی جائے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ آزاد کشمیر حکومت ریاست جموں و کشمیر نے مجوزہ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اور اعلان گزشتہ کئی ماہ سے کیا ہوا ہے اور اسے بہر صورت منعقد کرنے کے انتظامات تیزی سے کئے جا رہے ہیں لیکن جس چیز نے مجوزہ کانفرنس کی اہمیت کو غیر معمولی بنا دیا ہے، مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین۔۔۔ سیاسی صورتِ حال ہے جو اس اعتبار سے حد درجہ تشویشناک ہے کہ بھارت ایک بار پھر جبر و تشدّد اور ترغیب و تحریص کے مختلف ہتھکنڈوں سے کام لے کر وہاں تحریکِ آذادی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں تازہ ترین اطلاعات ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہیں۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو علی وجہ البصیرت سمجھتے ہیں کہ جہاں پاکستان کی بقا و سالمیت کا دار و مدار بڑی حد تک مقبوہ کشمیر کی آزادی اور پوری ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق پر ہے۔۔۔ وہاں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی تکمیل کا تمام تر انحصار بھی پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر ہے۔ اس لئے ہم اس بات کو پوری طرح سمجھتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کی بقا و سالمیت کے سلسلہ میں بھی ہم کشمیری مسلمانوں پر انتہائی گراں بار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو ہمیں بہر صورت ادا کرنا ہوں گی اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مجوزہ آل پاکستان کشمیر کانفرنس اس راہ میں ایک اہم قدم ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ!