کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 40
عملی قوتوں کو علومِ حاضرہ کے حصول میں لگا دیا جائے۔ افکار انسانی کے فکری تقاضوں کی اس طرح پر تکمیل تقاضائے زندگی سے گزر کر مقصدِ زندگی بن جاتی ہے اور اس طرحاعمالِ انسانی میں قلب ماہیتِ شریعتِ اسلامیہ کی خصوصیت میں سے ہے جس کا طریقہ الفاظ حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ میں بتا دیا گیا ہے یعنی عمل کا مقصود و مقام اس کے مخلصانہ تعین پر منحصر ہے۔ مقصد کی تبدیلی سے عمل کی حقیقت بلکہ اس کا اثر بھی بدل جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی مسلمہ نفسیاتی حقیقت ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی اور اخلاقی تقاضوں کے تحت جو قانون بھی مرتب کیا جائے گا اس سے شعبۂ تعزیرات میں ارتکاب جرائم کے تحقق کا بیشتر انحصار تعین مقصد ارتکاب عمل پر رکھنا ہو گا۔ اس طرح تمام مادی ترقیات میں بھی کسی قوم کا انہماک ایمان اور نیتِ صدق کے ساتھ ہو تو عبادات میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ حیاتِ انسانی کا ہر شعبہ ایمان باللہ کے ساتھ وابستہ ہو کر عمل صالح کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ قرآن حکیم کسی عمل کو خواہ وہ بظاہر نتائج کے اعتبار سے کتنا ہی جاذبِ نظر کیوں نہ ہو۔ ایمان باللہ کے بغیر حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ کا مصداق قرار دیتا ہے۔
لہٰذا خدا نا آشنا قوموں کی تمام خیرہ کن ترقیات اللہ کے نزدیک پرکاہ کی حقیقت نہیں رکھتیں اس کے برعکس احکامِ الٰہی یا شریعتِ اسلامیہ کے پیشِ نظر تمام بلند عزائم اور اعلیٰ مقاصد انسانیت کے مدارجِ کمال پر پہنچانے کا یقینی راستہ ہیں۔ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ!