کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 4
ما من عبد یسترعیه اللہ رعيةً ثم لم یحطھا بنصیحة الا لم یدخل الجنة
کہ جس کو بھی اللہ تعالیٰ نے رعیت کی ذمہ داری بخشی، پھر اس نے اس سلسلہ میں پوری پوری خیر خواہی ملحوظ نہ رکھی تو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، مسلم عن معقل رضی اللہ عنہ )
طبرانی کی ایک روایت میں یوں آیا ہے:
من لا یھتم بامر المسلمین فلیس منھم ومن لم یمس ویصبح ناصحا للہ ولرسوله ولکتابه ولامامه ولومة المسلمین فلیس منھم (طبرانی عن حذیفة رضي الله عنه )
کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات کی پرواہ نہیں کرتا، اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور جس شخص نے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی کتابِ حمید اور عام مسلمانوں کی (سچی) خیر خواہی سے غفلت برتی، اس کا بھی ان سے کوئی تعلق نہیں۔
اس جذبۂ پاک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین سے تعبیر فرمایا ہے:
الدین النصیحة ثلٰثا قلنا لمن؟ قال اللہ ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين ولعامتھم (مسلم عن تميم الداري رضي الله عنه )
کہ دین جذبۂ خیر خواہی کا نام ہے، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، ہم نے عرض کی، حضور! کس کی (خیر خواہی)؟ فرمایا، خدا، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے رہنماؤں اور تمام مسلمانوں کی۔
یعنی جذبۂ خیر خواہی کا دائرہ وسیع ہے کہ انسان خدا کا وفادار ہو، کتابِ الٰہی کا فرمانبردار ہو، رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اطاعت شعار ہو اور ایسے سیاسی سربراہ ہوں، جو خداوند کریم اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبردار ہوں، سے صدق دلانہ تعاون اور ان کے جائز احکام کی تعمیل کرے اور مسلمان عوام کا خیر خواہ ہو۔ سیاست کو دین کہنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ دین سے الگ کوئی شعبہ نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک شعبہ ہے۔ چنانچہ علماء نے سیاست کی یہ تعریف کی ہے:
علم بمصالح جماعة متشاركة فی المدنية لیتعاونوا علي مصالح الابدان وبقاء نوع الانسان فان للقوم ان يعاملوا النبي والحاكم والسلطان كذا وللنبي