کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 39
خالی ہیں، بلکہ اللہ کے تصور سے بیزار ہیں۔ جوہری تباہ کن ہتھیاروں کی دوڑ اس لئے ہے کہ ہر قوم اپنے پاس زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کر کے اس عافیت کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے۔ اس مقام پر سب سے زیادہ پیچیدہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فی الواقع صورتِ حال یہی ہے تو کیا یہ اندیشہ نہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے تباہ کن آلات کے ذریعہ اسلام کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور مسلمان جستجوئے امن کے خوابِ خرگوش میں ہی پڑے رہیں لیکن قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کے خلاف کفر کی ان چیرہ دستیوں سے دفاع کی ہدایت بھی فرما دی ہے: وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا ط اِنَّھُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ 0 وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِه عَدُوًّا اللهِ وَعَدُوَّكُمْ ...... یعنی کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ سبقت لے گئے، وہ (اسلام اور اہل اسلام کو) عاجز نہیں کر سکیں گے۔ تم کو چاہئے کہ ان کے مقابلہ کے لئے حتی المقدور قوت فراہم کرو اور لشکر تیار رکھو۔ جس سے اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر خوف طاری رہے اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے، انہیں اللہ جانتا ہے۔ (الانفال: ۵۹، ۶۰) اس آیت میں لفظِ ’’قوت‘‘ یا ’’خیل‘‘ وہی مفہوم رکھتا ہے جو فوجی اصطلاح میں Force کا ہے۔ قوت سے محض انفرادی صلاحیت مراد نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مفہوم ذرائع قوت خیال فرماتے ہوئے لفظِ قوت کی تفسیر تیر اندازی سے فرمائی ہے اور مدعا یہ ہے کہ قوت کے اسباب کا فراہم کرنا قوت ہے۔ اور اس بنا پر اس لفظِ ’’تیر‘‘ میں عہد حاضر کے وہتمام آلاتِ حرب شامل ہیں جو دشمن کے لئے باعثِ ہیبت ہوں۔ گویا یہ آیت مسلمانوں کو دشمنانِ دین کا مقابلہ کرنے کے لئے جوہری توانائی یا آتش و فولاد سے کام لینے کی ہدایت کرتی ہے اور فی الواقع اس کا مقصد ایسے سامان کا فراہم کرنا ہے۔ جو تخریبی قوتوں اور فتنہ برداریوں کے شر سے محفوظ رکھ سکے۔ قرآنِ حکیم اعدائے دین کی ان جنگی تیاریوں کے پیش نظر مسلمانوں پر بھی یہ فرض عائد کرتا ہے کہ وہ علومِ ریاضی و طبیعات و کیمیاوی میں دوسری اقوام سے گوئے سبقت نکال لے جانے کی کوشش کریں۔ راقم الحروف کے خیال میں اب یہی وہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوانوں کی تمام فکری اور