کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 38
کسی مدعا کے حصول کی تمنا اس مدعا سے ہٹ کر خوشنودیٔ مولا ہو گی تو وہ مدعا حاصل نہ ہونے کے باوجود اصل مدعا یعنی خوشنودیٔ حق سے ہرگز محروم نہیں ہو سکتا۔ صحت و توانائی کا حصول، فراوانیٔ مال کی طلب، عزت و جاہ و منصب کی خواہش، اولاد کی تمنا، حوائجِ زندگی کی سہولت۔ غرض بے شمار تمنائیں ہیں، اگر ان کے حصول کے لئے انسان اس طرح کوشش کرے کہ ہر حال میں اللہ کا تصور باقی رہے اور سعی و عمل کے کسی شعبہ میں اللہ کی ہدایات اور اس کے متعین دائرۂ حدود سے تجاوز روا نہ رکھے اور باوجود اس کے اپنی جدوجہد میں ناکام رہے، تب بھی اس کا دل مطمئن رہے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اصل مقصود تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا تصور تھا جسے اس نے کسی لمحہ بھی فراموش نہیں کیا اور اس مقصد میں وہ ناکام نہیں رہا۔ رہیں ظاہری ناکامیاں تو وہ ناکامی کی تعریف ہی میں نہیں آتیں کیونکہ فی الواقع وہ کوئی مقصد ہی نہ تھا۔ یہی وہ نفوس مطمئنہ ہیں جن کا اجر جنت یا لا زوال نعمت ہے۔
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِيْٓ اِلٰي رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
یعنی اے نفسِ مطمئنہ اب اپنے رب کی آغوش میں آجا کہ یہی تجھے پسند ہے اور تیرے لئے یہی پسند کیا گیا ہے۔ (الفجر: ۲۷:۲۸)
قرآنِ حکیم نے نفسِ مطمئنہ کا یہ انعام بیان فرما کر اطمینان یہ نہیں ہے کہ خوب پیٹ بھر کر کھاؤ، ڈکار لو اور مر جاؤ۔ اور نہ یہ مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح دولتِ فراواں حاصل کرو یا کابینہ حکومت کی رکنیت ملے یا کوئی عہدۂ وزارت حاصل ہو یا کسی کارخانہ کا اجرا کر سکو یا کسی زمین یا مکان پر قبضہ جما سکو، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا میں مطمئن رہو اور آخرت میں دائمی راحت سے بہرہ یاب ہو جاؤ۔
قرآنِ حکیم نے جوہری ، برقی، دخانی، آبی، ارضیاتی اور فلکیاتی قوتوں سے بہرہ مندہ ہونے کی تمام صلاحیتیں انسان کو عطا فرمائی ہیں لیکن اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے اس نے اطمینانِ قلب کے مقصد کو فراموش نہ کرنے کی تائید فرمائی ہے۔ دین کے لئے تمام مادی یا عنصری قوتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہی فوز و فلاح کا واحد ذریعہ ہے، جس سے اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔
اس وقت بین الاقوامی بے چینی اور خلفشار (جس سے غالباً عالمِ انسانیت کا کوئی گوشہ خالی نہیں) کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ تمام ترقی یافتہ یا ترقی پذیر قومیں اپنی برتری کے اقدامات میں ذکر اللہ سے