کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 37
اسلامی نظامِ حیات اور جدید رُجحانات
آخری قسط (۳)
پروفیسر منظور احسن عباسیؔ
مادیت کی حقیقت:
مادی ناز و نعم اور دنیوی ترقیات کو ایمان و اسلام کا ثبوت یا اس کے مقاصد میں سے تصور کرنا اسلام کی توہین ہے۔ اسی طرح یہ خیالات کہ کسی فرد یا جماعت کا ترفع یا حکومت و سلطنت، مال و جاہ، ایجادات و اختراعات اور علم و ہنر میں برتری حاصل کر لینا ہی اس کے مذہبی عقائد یا اخلاقی نظریات کے برحق ہونے کی دلیل ہے اور یا یہ خیال کرنا کہ جو لوگ مادی تفوّق کے اس مقام پر فائز ہیں وہی اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے سچے پیرو ہیں اور اس کے برعکس جو اقوام دنیاوی اور مادی حیثیت سے پس ماندہ ہیں وہ قرآنی بصیرت کے سچے پیرو ہیں اور اس کے برعکس جو اقوام دنیاوی اور مادی حیثیت سے پس ماندہ ہیں وہ قرآنی بصیرت یا دین سے بیگانہ یا اسلامی طرزِ فکر سے عاری ہیں، قطعاً باطل ہیں۔ بلکہ اسلام یا قرآن کے بلند مقاصد سے فراری ذہنیت اور خود اسلام سے بےزاری کے غماض ہیں اور مشرکانہ، ملحدانہ یا کم از کم مادہ پرستانہ طرزِ فکر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام امن و عافیت کوشی کا مذہب ہے اور انسانی زندگی کو مکمل طمانیتِ قلب کا درس دیتا ہے۔ اسلامی تمدّن نفوسِ مطمئنہ کی جولانگاہ ہے۔ نیز فتنہ و فساد، حرص و ہوا اور بغض و عناد جیسی خبیث خصائل کا دشمن ہے۔
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام نے اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے لئے کیا وسیلہ بنایا ہے اور پھر اطمینانِ قلب کیوں ضروری ہے۔ اس کے لئے قرآنِ حکیم کی دو آیتوں پر غور کیجئے:
اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرّعد: ۲۸)
یعنی یاد رکھو کہ اللہ کی یاد باقی رکھنے سے دل مطمئن ہوتا ہے۔
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اغراض و مقاصد دینی یا دنیوی کے حصول میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پیش نظر رکھے تو وہ کبھی ناکام نہ ہو گا۔ بلکہ ناکام ہونا اس کے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ کیوں کہ