کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 31
13. اس میں بھی آپ غلطی کھا رہے ہیں، منبر پر آپ نے ساری نماز ادا نہیں فرمائی چنانچہ مشکوٰۃ ص ۹۹ میں بحوالہ بخاری موجود ہے: حاصل ترجمہ یہ ہے کہ جب منبر بنایا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ کی طرف منہ کیا، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی اور قرأت پڑھی اور رکوع کیا۔ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکوع کیا۔ جب رکوع سے سر اُٹھایا تو پچھلے پاؤں لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا اسی طرح دوسری رکعت میں بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری نماز منبر پر نہیں پڑھی، بلکہ رکوع کے بعد باقی نماز زمین پر پڑھی۔ پھر فرمایا یہ میں نے اس لئے کیا کہ تم میری اقتداء کرو اور نماز کا طریقہ سمجھ جاؤ۔ چنانچہ یہ تعلیم کے لئے اب بھی جائز ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کا باب منعقد کیا ہے، فرماتے ہیں: باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ وانه لا کراھة فی ذلک اذا کان لحاجة وجواز صلوٰۃ الامام علی موضع ارفع من المامومین للحاجة کتعلیمھم الصلوٰۃ او غیر ذلک یعنی یہ باب دو چیزوں کے بیان میں ہے، ایک تو نماز میں قدم دو قدم چلنا بلا کراہت جائز ہے جبکہ ضرورت کے لئے ہو، دوسرا امام کا مقتدیوں سے بلند جگہ پر کھڑا ہونا جائز ہے جبکہ تعلیمِ نماز وغیرہ کے لئے ہو۔ اور شرح میں لکھتے ہیں: وفیه جواز صلوٰۃ الامام علي مضع الٰي من موضع المومنين ولٰكنه يكره