کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 30
نے حدیث پر عمل نہیں کیا تو وہ صحیح مرفوع قابلِ عمل حدیث کو چھوڑ دیں گے یا اس کی غلط سلط تاویل کر کے امام کے قول پر عمل کریں گے، اس لئے وہ اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ بایں ہمہ اگر وہ اہل حدیث کہلائیں تو ہمیں کوئی بخل بھی نہیں بلکہ ہمیں بڑی خوشی ہو گی مگر وہ خود ہی اہل حدیث کہلانے کو برا سمجھتے ہیں اور مقلد کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ کا بھی یہی حال ہے۔ جیسا کہ تحریرِ ہذا سے ظاہر ہے۔ ہاں ائمہ اربعہ بلکہ کل سلف متقدمین اہل حدیث تھے، نہ وہ کسی کے مقلد تھے نہ تقلید شخصی ان کا مذہب تھا۔ وہ قرآن و حدیث پر عمل واجب جانتے تھے لہٰذا وہ سب اہل حدیث تھے۔ 10. ہاں اہلحدیث کے یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کل احادیثِ صحیحہ مرفوعہ قابلِ عمل پر عمل کرنے والے، ورنہ اہل حدیث نہیں کہلا سکتے اور کل احادیث پر عمل کرنا ناممکن نہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ 11. اس طرح تو بزعم آ پ کے قرآن پر بھی عمل ناممکن ہو گا کیونکہ قرآن میں بھی ناسخ منسوخ موجود ہیں، پھر تو کوئی شخص بھی جنتی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ سارے قرآن پر کسی نے عمل نہ کیا، پھر نجات کہاں؟ یہ آپ اپنی کم علمی اور کم فہمی کی بنا پر اعتراض کر رہے ہیں ورنہ اللہ کے علم میں ہر ایک حکم پر عمل کے لئے ایک وقت معین ہوتا ہے منسوخ پر قبل از نسخ عمل ہوتا ہے اور ناسخ پر بعد از نسخ۔ اس طرح سب پر عمل ہو گیا، کوئی بھی غیر عمل نہ رہا۔ 12. جب آپ ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ مانتے ہیں تو دوسرے کو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ خاصہ کی تعریف ہے: ’’ما لا یوجد فی غیرہ‘‘ نیز دوسرا ان کا مکلف ہی نہیں ہو گا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاصے صرف حدیث میں ہی مذکور نہیں بلکہ بہت سے خاصے قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں، مثلاً بیک وقت چار سے زائد ازواج مطہرات نکاح میں رکھنا، اور ان میں عدل و فرض نہ ہونا وغیرہ جیسا کہ سورہ احزاب میں مذکور ہے تو پھر بقول آپ کے سارے قرآن پر بھی عمل ناممکن ہو گیا۔ آپ نے سوچا تک نہیں، خواہ مخواہ اعتراض کرنے بیٹھ گئے۔