کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 28
جب کہ اس کی اتباع فرض ہے؟ نیز یہ مسلمہ امر ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہے، جب قرآن پر عمل ممکن اور فرض ہے تو تفسیر (حدیث) پر کیوں ممکن اور فرض نہیں؟ نیز وحی کی دو قسمیں ہیں ’’متلوّ‘‘ یعنی قرآن اور ’’غیر متلو‘‘ یعنی حدیث اور دین کے معاملہ میں اللہ نے اپنے نبی کا ذمہ لیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ جو بولتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیْ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی تو ایک وحی (قرآن) کی اتباع فرض ہو اور دوسری وحی (حدیث) کی اتباع ناممکن ہو، عقل کے خلاف ہے۔ لہٰذا اہلحدیث ہونا اور عامل بالحدیث ہونا عین ممکن ہے، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین پورے عامل بالحدیث تھے اور یہ بات تاریخ دانوں پر مخفی نہیں۔ ہاں آپ کو معلوم نہ ہو تو یہ آپ کے علم کا قصور ہے۔ نیز اس دعوےٰ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حدیثوں پر عمل کرنا ناممکن ہے، آپ منفرد ہیں آپ سے پہلے کسی شخص نے یہ دعویٰ نہیں کیا اور ناممکن ہونے کے جو وجوہ آپ نے بیان کئے ہیں اس میں بھی آپ منفرد ہیں، کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ’’چونکہ بعض حدیثیں منسوخ ہیں اور بعض خاصے وغیرہ ہیں لہٰذا ساری حدیثوں پر عمل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ 2. حدیث کی تین قسمیں ہیں: قولی، فعلی اور تقریری، آپ نے صرف قولی اور فعلی کا ذکر کیا ہے لیکن تقریری چھوڑ گئے ہیں جو آپ کی کم علمی پر دالّ ہے۔ 3. صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و اعمال موقوف حدیث کہلاتے ہیں، ان پر عمل اس وقت جائز ہے جب کہ صحیح مرجوع حدیث کے خلاف نہ ہوں، مخالفت کی صورت میں ان پر عمل کرنا جائز نہیں کیونکہ انسانوں میں سے دین کے معاملہ میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی معصوم ہیں باقی سب سے غلطی ممکن ہے چنانچہ ’’المجتھد یخطی ویصیب‘‘ سب کا مسلمہ ہے کہ مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور گاہے صحیح بھی کہتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بوقت رکوع تطبیق کرتے تھے یعنی گھٹنوں میں ہاتھ رکھتے تھے اور معوذ تین[1] کو قرآن کی سورتیں نہیں
[1] سنا ہے کہ معوذتین کے بارے میں ان کا رجوع ثابت ہے ۔