کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 27
چکڑالویؔ اس لئے گمراہ ہیں کہ وہ قرآن شریف کو بغیر (۲۶) حدیث کے نور کے سمجھنا چاہتے ہیں۔ براہِ راست رب تک پہنچتے ہیں۔ غیر مقلدؔ اس لئے راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں کہ یہ حدیث کو بغیر علم کی روشنی اور بغیر امام (۲۷) مجتہد کے نُور کے سمجھنا چاہتے ہیں۔ مقلدین اہل (۲۸) سنت کا بیڑا پار ہے (ان شاء اللہ) کہ ان کے پاس کتاب اللہ بھی ہے، سنتِ رسول اللہ بھی اور سراجِ امت امامِ مجتہد کا نُور بھی۔
خلاصہ یہ کہ اہل حدیث بننا ناممکن اور جھوٹ، اور اہل سنت بننا حق اور درست ہے۔ اہل سنت وہی ہو سکے گا جو کسی امام کا مقلّد ہو گا۔ قیامت کے دن رب تعالیٰ اپنے بندوں کو اماموں (۲۹) کے ساتھ پکارے گا۔ (قرآن حکیم)
خیال رہے کہ قرآن و سنت کا سمندر ہم مقلّد بھی عبور کرتے ہیں اور غیر مقلد وہابی بھی۔ لیکن ہم تقلید (۳۰) کے جہاز کے ذریعہ سے جس کے ناخدا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ (۳۱) رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ان کی ذمہ داری (۳۲) پر سفر کر رہے (۳۳) ہیں، لہٰذا ہمارا بیڑا پار ہے اور غیر مقلدّ وہابیوں کا انجام غرقابی ہے کیونکہ وہ خود اپنی ذمہ داری پر (۳۴) اس سمندر میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔
عامل بالحدیث ہونا ممکن بلکہ ضروری ہے
الجواب:
1. یہ آپ کی غلط فہمی ہے ورنہ اہل حدیث اور عامل بالحدیث ہونا عین ممکن ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دی ہے اور اللہ تعالیٰ تکلیف مالا یطاق کو یعنی غیر ممکن کو فرض قرار نہیں دیتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی شان ’’عَزِیْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤمِنِيْنَ رَؤٌوْفٌ رَحِيمْ‘‘ ہے، امت کے لئے غیر ممکن بلکہ حتی الامکان مشکل بھی پسند نہیں فرماتے۔ پھر حدیث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال، احوال اور تقریرات کا نام ہے، پر عمل کرنا اور اہل حدیث ہونا ناممکن کس طرح ہوا؟ یہ تو بزعم آپ کے اللہ نے نقیضین اور ضدّین کو جمع کر دیا، حالانکہ یہ ذی عقل سے محال ہے۔ نیز جب یہ مسلمہ بات ہے کہ دین کے چار ادلّہ ہیں یعنی قرآن، حدیث، اجماع اور صحیح قیاس، اور چاروں کی اتباع امت کے لئے فرض ہے، تو پھر عمل بالحدیث غیر ممکن کس طرح ہوا،