کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 26
غیر مقلد اسی حدیث پر عمل کر کے اس طرح (۱۵) کلمہ کا ورد کریں۔ غرضیکہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اقوال و اعمال بھی ذکر ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئےکمال ہیں اور ہمارے لئے کفر (۱۶)۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعالِ کریمہ جو نسیان (۱۷) یا اجتہادی خطا سے سرزد ہوئے، حدیث (۱۸) میں مذکور ہیں۔ غیر مقلدوں کو چاہئے کہ وہ ان پر بھی عمل کریں۔ ہر حدیث پر جو عامل ہوئے۔ بہرحال کوئی شخص ہر حدیث پر عمل نہیں کر سکتا (۱۹)۔ جو اس معنے میں اپنے کو اہل حدیث یا عامل بالحدیث کہے وہ جھوٹا ہے۔ جب نام میں ہی جھوٹ ہے تو اللہ کے فضل سے کام بھی سارے کھوٹے ہی ہوں گے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’لازم پکڑو میری اور خلفاء راشدین کی سنت (۲۰) کو۔‘‘ یہ نہ فرمایا کہ میری حدیث (۲۱) کو لازم پکڑو۔ کیونکہ ہر حدیث لائقِ عمل نہیں، ہر سنت (۲۲) لائقِ عمل ہے۔ حضور کے وہ اعمالِ طیبہ جو منسوخ بھی نہ ہوئے ہوں، حضور سے خاص بھی نہ ہوں، خطاءً، نسیاناً بھی سرزد نہ ہوں بلکہ امت کے لئے لائقِ عمل ہوں، انہیں سنت (۲۳) کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارا نام اہل سنت (۲۴) بالکل حق اور درست ہے کہ ہم بفضلہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عامل ہیں۔ اہل حدیث نام بالکل غلط ہے کیونکہ ہر حدیث پر عمل ناممکن ہے۔ اب حدیثوں کی یہ چھانٹ کہ کون سی حدیث منسوخ (۲۵) ہے، کون سی محکم۔ کونسی حدیث حضور کے خصائص میں سے ہے اور کون سی سب کی اتباع کے لئے، کون سا فعل اقتداء کے لئے ہے اور کون سا نہیں، کس فرمان کا کیا منشا ہے، کس حدیث سے صراحتہً کیا مسئلہ ثابت ہے اور کس سے اشارۃً، کون سا دلالۃً، کون اقتضاءً۔ یہ سب کچھ امام مجتہد ہی بتا سکتا ہے، ہم جیسے عوام وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جیسے قرآن پر عمل کرانا حدیث کا کام ہے ایسے ہی حدیث پر عمل کرانا امام مجتہد کا کام ہے۔ یوں سمجھو کہ حدیث شریف رب تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اور امام مجتہد اس راستہ کا توڑ۔ جیسے بغیر روشنی راہ طے نہیں ہوتی، بغیر امام مجتہد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل ناممکن ہے۔ اسی لئے علماء فرماتے ہیں: ’’بغیر مجتہد قرآن و حدیث گمراہی کا باعث ہیں۔‘‘ رب تعالیٰ قرآنِ کریم کے متعلق فرماتا ہے: ’’(اللہ تعالیٰ) قرآن کے ذریعے بہت کو گمراہ کرتا ہے اور بہت کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘