کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 25
اعتراض:
1. کسی کا اہل حدیث ہونا یا عامل بالحدیث ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسے دو نقیضیں یا دو ضدیں جمع ہونا ناممکن ہے۔
حدیث کے لغوی معنی ہیں بات، گفتگو یا کلام۔ قرآنِ پاک میں ربِّ زوالجلال فرماتے ہیں:
’’قرآن کے بعد کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے اچھا کلام نازل فرمایا۔ بعض لوگ وہ ہیں جو کھیل کی باتیں و ناول قصے خریدتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکا دیں۔‘‘
اس تیسری آیت میں ناول قصے کہانیوں کو حدیث فرمایا گیا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں حدیث اس کلام کا نام ہے جس میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال یا (۲) اعمال، اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کرام کے اقوال و اعمال (۳) بیان کیے جاویں۔
عامل بالحدیث فرقہ سے سوال ہے کہ تم کون سی حدیث پر عامل ہو؟ لغوی پر یا اصطلاحی (۴)پر ؟ اگر لغوی حدیث پر عامل ہو تو چاہئے کہ ناول گو، قصہ خواں اہل حدیث ہو کہ وہ ’’حدیث‘‘ یعنی باتیں کرتا ہے۔ ہر سچی جھوٹی بات پر عمل کرتا ہے اور اگر اصطلاحی حدیث پر عامل ہو تو پھر سوال یہ ہو گا کہ ہر حدث پر عامل ہو یا بعض پر (۵)؟ اول تو غلط (۶) ہے کیونکہ حضور (۷) کے کسی نہ کسی فرمان پر ہر شخص ہی عامل ہے۔ حضور فرماتے ہیں سچ نجات دیتا ہے، ’جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ ہر مشرک و کافر اس کا قائل ہے‘ وہ سب ہی اہل (۸) حدیث ہو گئے۔ تم حنفی (۹)، شافعی، مالکی اور حنبلی مسلمانوں کو اہل حدیث کیوں نہیں مانتے۔ یہ تو ہزار ہا حدیثوں پر عمل کرتے ہیں اور اگر اہل حدیث کے معنی (۱۰) ہیں، حضور کی ساری حدیثوں پر عمل کرنے والے تو یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ بعض حدیثیں منسوخ (۱۱) ہیں اور بعض ناسخ۔ بعض حدیثوں میں حجور صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ خصوصی (۱۲) اعمال شریف بیان ہوئے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مباح یا فرض تھے، ہمارے لئے حرام ہیں۔ جیسے منبر (۱۳) پر نماز پڑھنا، اونٹ پر طواف فرمانا، حضرت حسین سید الشہداء رضی اللہ عنہ کے لئے سجدہ دراز فرمانا، حضرت امام بنت ابی العاص کو کندھے پر لے کر نماز پڑھنا، نو بیویاں نکاح میں رکھنا، بغیر مہر نکاح ہونا، ازواج میں عدل و مہر واجب نہ ہونا۔
بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کلمہ یوں پڑھتے تھے:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ (۱۴) اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں)