کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 23
پرہیز گاروں کے لئے عنایت کی۔(پ ۱۷۔ الانبیاء۔ ع ۴)
اس کے بعد متقی لوگوں کا تعارف کرایا:
اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (ایضاً)
جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
سورہ فاطر میں ہے:
اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَ (پ ۲۲۔ فاطر۔ ع ۳)
آپ تو بس ان ہی لوگوں كو ڈرا سکتے ہیں جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں۔
سورۂ ملک میں ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ (پ ۲۹۔ ع۱)
جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔
جن بزرگوں نے بِالْغَیْبِ کے معنے لوگوں سے غائب رہ کر کیے ہیں یہ آیات ان کی تائید کرتی ہیں (اَلقْراٰن یفسر بعضہ بعضًا) اس لئے اگر یہاں پر یُؤْمِنُوْنَ کے معنے یَخْشَوْنَ کیے جائیں تو یہ قرآن تفسیر ہو گی۔
دراصل ایمان (خدا اور اس کی بات ماننے) کے ضمن میں سبھی کچھ آجاتا ہے۔ بیم بھی اور رجاء بھی، ڈر بھی، امید بھی۔ حسنِ ظن بھی اور عقیدت بھی، جوہ شناسی بھی اور قدر دانی بھی۔ اس لئے ہمارے نزدیک یہ سب امور ایمان کے خواص، مقتضیات اور مکارمِ مزاج میں داخل ہیں۔ بناء بریں تفسیر یہ بھی صحیح اور وہ بھی (فکل ھذہ متقاربة فی معنی واحد۔ ابن کثیر)