کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 22
لیکن شرط یہ ہے کہ جو خامی پیدا ہو گئی ہے، اسے وہ دل سے ناپسند ہی کرتا ہو۔ ولکن لابد ان یکون کارھا لھا ۔۔۔۔ فمن لم یکرہ۔۔۔۔ لم یکن منھم (کتاب الایمان ص ۲۰) ایمان اور اسلام میں فرق واضح ہے۔ ایمان دل کی بات کا نام ہے جیسے تصدیق، اقرار اور معرفت اور اسلام ایمان کے عملی مظاہر کا نام ہے یعنی دل اور جوارح کے اعمال کا نام ہے جیسے اللہ کے حضور، تذلّل اور عبودیت کے ساتھ حاضری دینا: الاسلام ھو الاستسلام وھو الخضوع له والعبودية له ۔۔۔ فالاسلام فی الاصل من باب العمل عمل القلب والجوارح واما الیمان فاصله تصدیق واقرار ومعرفة فھو من باب قول القلب المتضمن عمل القلب والاصل فيه التصديق والعمل تابع له (كتاب الايمان) ہاں قرآن میں صرف ’اسلام‘ کی بنیاد پر دخولِ جنت کا ذِکر نہیں آیا کیونکہ بظاہر ایسا ایک منافق بھی کر سکتا ہے ہاں صرف ایمان کے ساتھ جنت کا ذکر ملتا ہے۔ واما الاسلام المطلق المجرد فلیس فی کتاب اللہ تعلیق دخول الجنة به كما في كتاب الله تعليق دخول الجنة بالايمان المطلق المجرد (ايضاً ص ۱۰۴) اس بارے میں اختلاف ہے کہ اسلام افضل ہے یا ایمان۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اسلام افضل ہے، ایک اور گروہ کا نظریہ ہے کہ دونوں برابر ہیں، تیسرا قول یہ ہے کہ ایمان ہی افضل اور اکمل ہے اور یہی حق بھی ہے۔ والقول الثالث ان الایمان اکمل وافضل وھذا ھو الّذي دل عليه الكتاب والسنة في غير موضع (ايضاً ص ۱۶۸) بعض ئمہ نے یُؤْمِنُوْنَ کے معنے یَخْشَوْنَ (ڈرتے ہیں) کیے ہیں (ومنھم من فسرہ بالخشية۔ ابن کثیر) اس کی تائید دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے۔ صحف سماوی کے ذکر میں فرمایا: وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِيَآءً وَّذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ اور ہم نے (حضرت) موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو فرقان، روشنی اور نصیحت