کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 21
یُؤْمِنُوْنَ (ایمان لاتے ہیں) سچے دل سے خدا کی بات ماننے اور اس کی تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ کبھی تنہا استعمال ہوا ہے اور کبھی اسلام کے ساتھ۔ تنہا کی صورت میں تو ایمان قلبی اور اعمالِ صالحہ (اسلام) دونوں مراد ہوتے ہیں اور جہاں ایمان اسلام کے ساتھ آیا ہے وہاں اسلام سے مراد ظاہری اعمال اور ایمان سے مراد ایمان باللہ ہے۔
فلما ذکرا لایمان مع الاسلام جعل الاسلام ھو الاعمال الظاھرۃ کالشھادتین ۔۔۔۔۔ وجعل الايمان ما في القلب من الايمان بالله ۔۔۔۔۔ واذا ذكر اسم الايمان مجردا دخل فيه الاسلام والاعمال الصالحة (كتاب الايمان ص ۵)
بعض نيك كاموں كے نہ ہونے پر ايمان کی نفی کر دی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ فرض ہے جیسے لا صلوٰۃ الّا بام القراٰن (فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہے) اگر اعمال خیر کی بنا پر فضیلت کا ذکر آیا ہے مگر ایمان کی نفی نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیز مستحب ہے اور جو لوگ اس سے نفی کمال مراد لیتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ایساکمال جس ترک کر دینے سے انسان سزا کا حقدار ہو جاتا ہے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر نفی کمال سے مستحب کی نفی مراد ہے تو یہ غلط ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا استعمال نہیں ملتا۔ ثم ان نفی الایمان عند عدمھا دلّ انھا واجبة وان ذکر فضل صاحبھا (ای اعمال البر) ولم ینف ایمانه دلّ علی انھا مستحبة ۔۔۔۔ فمن قال ان النفي ھو الكمال فان اراد انه نفي الكمال الذي يذم تادكه ويتعرض للعقوبة فقد صدق وان اراد انه نفي الكال المستحب فھذا لم يقع قط في كلام الله ورسوله ولا يجوز ان يقع (كتاب الايمان ص ۵-۶)
باقی رہے وہ لوگ جو اہلِ ایمان ہونے کے باوجود ’عمل میں خام‘ ہیں کیا ان کو مومن کہہ سکتے ہیں؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ف 768ھ) فرماتے ہیں، مطلقاً تو نہیں، ہاں ناقص الایمان ان کو کہہ سکتے ہیں:
فالمومن لابد ان یحب الحسنات ولابد ان یبغض السیئات ولابد ان يسرّه فعل الحسنة ويسوءه فعل السيئة ومتي قدر انه في بعض الامور ليس كذٰلك كان ناقص الايمان (كتاب الايمان ص ۲۰)