کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 20
حدثنا عن التقویٰ فقال ھل اخذت طریقا ذا شوک قال نعم قال فما عملت فیه؟ قال حذرت وتشمرت قال كعب وذلك التقوي (بغوي وغيره) ابن كثير ميں كعب كے بجائے ابی بن كعب ہے۔
بعض علماء لکھتے ہیں کہ تقویٰ کے تین درجے ہیں: پہلاؔ یہ کہ عذابِ جاوداں سے بچ جائے یعنی شرک سے محفوظ رہے، دومؔ مزید معاصی اور سیئات سے بھی پرہیز کرے۔ شریعت کی زبان میں تقویٰ سے مراد یہی درجہ ہے اور تیسراؔ یہ کہ شبہات تک سے پرہیز کرے اور ان مباح اُمور کو بھی ترک کر دے جو معاصی کا سبب بن سکتے ہیں۔ باطن کو غیر حق کی دل چسپیوں سے بالکل پاک کر دے اور اپنے اعضاء و جوارح کو باری تعالیٰ کی جناب کے لئے یکسو رکھے وَاتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِه میں اسی مرتبہ کا ذکر ہے ۔[1] اس کے علاوہ عرف شرح میں لفظ تقویٰ کئی ایک معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً بمعنے ایمان (وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَةَ التَّقْوٰی) بمعنے توبہ (وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوا وَاتَّقُوْا) بمعنے اطاعت (لَآ اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ) بمعنے تركِ گناه (وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا وَاتَّقُوا اللهَ) بمعنے اخلاص (فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ ) [2] بمعنے خوف (وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ) بمعنے بچاؤ (اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْھِه سُوْٓءَ الْعَذَابِ) (مفردات) الغرض جو خدا سے ڈرتے ہیں وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور دھڑکتے دل کے ساتھ سفرِ حیات کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ انہی سلیم الفطرۃ اور سنجیدہ لوگوں کے لئے قرآنِ حمید مشعلِ راہ بھی ہے اور رفیقِ سفر بھی۔ صحیح معنےٰ میں یہی لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں اس لئے بالخصوص ان کا ذِکر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کا صحیح مصرف، عمل ہے، باقی رہی اس کی تلاوت۔ سو یہ بھی گو ایک کارِ ثواب ہے تاہم مطلوب وہی عمل اور طرزِ حیات ہے جو لے کر وہ ہم پر نازل ہوا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ بندۂ مومن ہاتھ نہیں آتا جس کو خدا کا پورا پورا اعتماد حاصل ہو۔
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
جو غیب پر ایمان لائے
[1] تفسیر عزیزی
[2] ایضاً