کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 19
نہیں رہتا۔ پہلی صورت سے انسان شرک اور ریاء میں پڑ جاتا ہے۔ دوسری سے معصیت کا شکار ہو جاتا ہے اور تیسری کی وجہ سے بدعت میں مبتلا ہو جاتا ہے: وتخلف الوصول یقع من الشركة فی ھذہ الامور او فی بعضھا فالشركة فی المطلوب تنافي التوحيد والاخلاص والشركة في الطلب تنا في الصدق والحزيمة والشركة في الطريق تنافي تباع الامر فالوال يوقع في الشرك والرياء والثاني يوقع في المعصية والبطالة والثالث يوقع في البدعة ومفارقة السنة فتوحيد المطلوب يعصم من الشرك وتوحيد الطلب يعصم من المعصية وتوحيد الطريق يعصم من البدعة والشيطان (اقسام القراٰن ص ۲۶) ہدایت، دل کی دولتِ ایمان ہے اور یہ جنسِ بازار نہیں ہے کہ کوئی کہیں سے ڈھونڈ کر لائے۔ یہ تو صرف خدا کے بس کی بات ہے۔ جس دل کو چاہتا ہے اس دولت سے مالا مال کر دیتا ہے: یطلق الھدی ویراد به ما یقر فی القلب من الایمان وھذا لا یقدر علی خلقه في قلوب العباد الا الله عزوجل قال الله تعاليٰ (اِنَّكَ لَا تَھْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ) وقال (لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰھُمْ) وقال (مَنْ يُّضْلِلِ اللهُ فَلَا ھَادِيَ لَه) وقال (ومن يھدي الله فھو المھتد ومن يضلل فلن تجد له وليامر شدا) (تفسير ابن كثير) ہاں وہ اعمال اور افکار، حصولِ ہدایت کے لئے ایک بہانہ یا کشش کا ذریعہ بن سکتے ہیں جن کی نشاندہی کتاب و سنت نے کی ہے۔ (۳) لِلْمُتَّقِیْنَ (متقی لوگوں کے لئے) ’’ہدایتِ کامل‘‘ کے بیان میں جو تین خصائلِ حمیدہ اور اوصاف بیان کئے گئے ہیں، ان کے حامل دراصل یہی ‘متقی‘ لوگ ہیں اور یہی ان کا جامع تعارف بھی ہے، اس لئے ’کامل ہدایت‘ کے اعزاز سے سرفراز بھی یہی بندگانِ خدا ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی حقیقت دریافت کی تو وہ بولے: کیا کبھی خار دار راستہ سے بھی آپ گزرے؟ فرمایا: کیوں نہیں! پھر پوچھا، تو پھر کیا کرتے ہو؟ بولے: بس بچ بچا کر دامن سمیٹتے گزر جاتا ہوں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’یہی تقویٰ ہے۔‘‘