کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 18
(۱) فیه (اس میں) فیہ کے دائیں بائیں نقطوں کے جو نشان ہیں۔ وہ اس بات کی علامت ہیں کہ فیہ کا تعلق دائیں لفظ سے بھی ہو سکتا ہے اور بائیں والے لفظ سے بھی۔ وقف فیہ پر کریں اور لَا رَیْبَ فِیْه پڑھیں یا وقف لَا رَیْب پر کریں اور فیهِ کو ھُدیً کے ساتھ ملا کر فِیْه ھُدًي لِّلْمُتَّقِيْنَ پڑھیں، دونوں درست اور جائز ہیں۔
لَا رَیْبَ فِیْه کی صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ: ’اس میں کچھ بھی شک نہیں‘ اور جب فِیْه ھُدًي لِّلْمُتَّقِيْنَ پڑھیں گے تو معنے یوں کریں گے کہ ’متقی لوگوں کے لئے ہدایت صرف اسی میں ہے۔‘ دوسری صورت کو اختیار کیے بغیر بھی بات وہی ہے جو بیان کی گئی ہے، لیکن سیاقِ کلام کے لحاظ سے صورت پہلی راجح ہے یعنی فیه کو لَا رَیْبَ سے ملا کر پڑھنا چاہئے! امام ابن کثیر (ف 774) نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے اور ھُدًی کو کتاب کی صفت قرار دیا ہے کیونکہ دوسرے مقامات پر ایسا ہی واقع ہوا ہے۔
(۲) ھُدًی (ہدایت) ہدایت کے دو معنے ہیں (۱) راہ رکھانا اور (۲) راہ پر لا دینا۔ پہلی ہدایت تو عام ہے مسلم اور کافر سبھی کے لئے کھلی ہے اور سب پر واضح کر دی گئی ہے دوسری ہدایت خاص ہے، کامل اور خدا کا خاص انعام ہے۔ مگر اس کے حصول کے لئے تین شرطیں اور فضائلِ حمیدہ ضروری ہیں:
۱۔ مطلوب واحد ہو (۲) طلب واحد ہو (۳) اور طریق (راہ) واحد ہو۔ مطلوب واحد سے حق، طلب واحد سے جذبۂ اتباع اور طریق واحد سے سنت مراد ہے یعنی صرف حق سامنے ہو، اس کی غلامی کا جذبہ کار فرما ہو اور سنت کے مطابق اس کے حصول کی کوشش ہو۔ حضرت امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والھدي التقام يتضمن توحيد المطلوب وتوحيد الطلب وتوحيد الطريق الموصلة والانقطاع (اقسام القراٰن ص ۲۶)
اس کے باوجود اگر گوہرِ مقصود ہاتھ نہ لگے تو پھر سمجھ لیجئے کہ ان میں سے کسی ایک میں یا سب میں کوئی بے جا آمیزش ہو گئی ہے۔ مطلوب میں آمیزش سے توحید اور اخلاص نہیں رہتا۔ طلب میں آمیزش، صدق اور عزمِ صمیم کو متزلزل کر دیتی ہے اور طریق میں آمیزش سے امتثالی امر ممکن