کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 17
ولھذا لا يوصف باليقين الا من اطمأن قلبه علما وعملاً (كتاب الايمان ص ۱۱۲)
مقصد یہ ہے کہ اس کتابِ مبین کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں، ہاں اس کے مضامین اور عجائبات مقامِ حیرت تو ضرور ہیں لیکن خلجان اور اضطراب کا سبب نہیں ہیں۔ یہ ایک کریم رہنما، مشفق رفیقِ سفر اور نورانی مشعلِ راہ ہے۔ جس سے سالک ایک گونہ طمانیت اور سکینت ہی محسوس کرتا ہے کیونکہ جہاں اجالا ہی اجالا ہو وہاں اضطراب کہاں اور تردّد کیسا؟ اس کے باوجود اگر کسی صاحب کو اس سلسلہ میں تردّد اور شکوک و شبہات کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں تو اس اپنا ہی جائزہ لینا چاہئے۔ حضرت امام ابن القیم رحمہ اللہ آیت لَا یَمَسُّهٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اس آیت سے معلوم ہوا ہے کہ قرآن حمید کے مضامین اور معانی سے صرف انہی کو مناسبت حاصل ہو سکتی ہے، جن کا دل پاک ہو اور وہی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو اسے کلامِ خدا تصور کرتے ہیں، جو قرآن کے ظاہر کے برعکس اس کے مخالف باطنی معنوں پر یقین رکھتا ہو، جو قنوطی اور وہمی بندہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اونچا کلام ہے، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، بس حق ماننا ہی کافی ہے یا جو اس کو اپنے مسلک اور مشرب کے تابع رکھنا چاہتا ہے اور اپنے گروؤں کے اقوال کی ترازو میں تول تول کر اس سے کسبِ فیض کی کوشش کرتا ہے اور جو شخص دل و جان سے اپنے ظاہر اور باطن پر اس کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتا یا اس کے اوامر، نواہی اور اخبار کا امتثال نہیں کرتا، ان سب لگوں کے دلوں کی یہ گھٹن، قرآنِ حکیم سے کسبِ فیض اور مناسبت کے حصول میں مانع ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ نے اس سے جوچاشنی پائی تھی، یہ لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔
کل ھٰولاء لم تمس قلوبھم معانیه ولا یفھمونه کما ینبغی ان یفھم ولا یجدون من لذۃ حلاوته وطعمه ما وجدہ الصحابة ومن تبعھم (اقسام القراٰن ملخصا وملتقطا)
فِیْهِ ھُدًي لِّلْمُتَّقِيْنَ
پرہیز گاروں کی رہنمائی ہے۔