کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 16
اہم اور عظیم مقام حاصل ہے، جب تفویض و تسلیم کے باب میں کوئی راسخ ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ باتیں اور اسرار دل کی آواز بن جاتے ہیں۔
(۲) ذٰلک (ووہ) ذا اشارۂ قریب، ذاک اشارۂ متوسط اور ذٰلک اشارۂ بعید کے لئے آتا ہے۔ اشارۂ بعید سے مقصود کبھی معہود و ذہنی ہوتا ہے یعنی مشارٌ الیہ متکلّم اور مخاطب کے ذہن میں ہوتا ہے۔ کبھی تحقیر اور کبھی واقعۃً بُعدِ زمانی اور بُعدِ مکانی ملحوظ ہوتا ہے اور کبھی اس کا محرّک ’’علوِّ شان‘‘ کا احساس ہوتا ہے جیسے ایک عظیم انسان جو گو سامنے ہوتا ہے مگر آنجناب کر کے اس کی بات کی جاتی ہے۔ یہاں بھی (ذٰلک) ’’الکتاب‘‘ کے علوِّ شان (اونچی شان) کے لئے استعمال ہوا ہے اور یہ اس وقت آپ محسوس کریں گے جب آپ ’وہ‘ کو لمبی آواز میں اور کھینچ کر ’ووہ‘ کر کے بولیں گے۔ کتاب سے قرآنِ پاک مراد ہے اور یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس سے قرآن ہی مقصود ہوتا ہے یہ شریعت اور دینِ مبین کا اوّلین اور بنیادی ماخذ ہے۔ سنت، اجماع اور قیاس سبھی اسی کے شارح ہیں۔
(۳) لَا (بالکل نہیں) یہ حرف عدمِ محض کے معنے دیتا ہے یعنی جس لفظ یا جملہ پر داخل ہوتا ہے اس کی جنس کی بالکل نفی کر دیتا ہے۔ اس شے کی نفی کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ بالکل ہے ہی نہیں یہ اس کے اصلی معنے ہیں۔ یا یہ کی جیسی چاہئے تھی ویسی نہیں ہے، یہ اس کے مجاز ی معنے ہیں۔ اس کا فیصلہ قرائن، پیرائیہ بیان، عرف اور اصول کے سیاق و سباق کو دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ یہاں اصلی معنے مراد ہیں یا مجازی۔
(۴) رَیْب (شک، تردّد اور قلق) اس سے مراد شک اور تردّد ہے جو وجہِ اضطراب بنتا ہے۔ (حقیقتا قلق النفس واضطرابھا قاله زمخشری وقال البیضاوی: سمی بد الشاک لانه یقلق النفس ویزیل الطمانية، بیضاوی)
ریب کا علق قلب کے علم اور عمل سے ہے، لیکن شک کا تعلق صرف علمِ قلب سے ہے۔ اس لئے جب تک دل علم و عمل کی حد تک مطمئن نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو یقین سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا:
الریب یکون فی علم القلب وفی عمل القلب بخلاف الشک فانه لا یکون الا فی العلم