کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 15
التفسیر والتعبیر بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ (شروع)اللہ کے نام سے (جو) نہایت رحم والا مہربان ہے۔ الٓمّٓ 0 ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیهِ الف، لام، میم، یہ وہ کتاب ہے جس (کے کلامِ الٰہی ہونے) میں کچھ بھی شک نہیں۔ (۱) الٓمّٓ (الف، لام، میم) یہ حروف بقرۃؔ، آلِ عمرانؔ، عنکبوتؔ، رومؔ، لقمانؔ اور سجدہؔ کے شروع میں آئے ہیں۔ ان کا نام ’حروفِ مقطعات‘ ہے۔ ۱۱۴ سورتوں میں سے (۲۹) سورتوں کا آغاز حروفِ مقطّعات سے ہوا ہے۔ وہ کل یہ ہیں: ا، ج، ر، س، ص، ع، ق، ک، ل، م، ن، ہ، ی۔ ان کے معنے کیا ہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ حضرت امام ابنِ حزم رحمہ اللہ نے ان کو مشتبہات میں شمار کیا ہے ۔ بعض اکابر نے ان کے کچھ معنے بیان کیے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کا رواج دوسری زبانوں میں بھی ہے اور عربی میں بھی۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ سب ان کی نکتہ آفرینیاں ہیں۔ یہ ان کے لغوی اور شرعی معنے نہیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اسرارِ الٰہیہ میں سے ہیں جن کو وہ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان کے معنی اَنَا اللہُ اَعْلَمُ (میں اللہ ہی بہتر جانتا ہوں) کر کے ان کا صیغۂ راز اور اسرارِ مخفیہ ہونا واضح فرمایا ہے، مگر بہت سے اکابر نے ’اسے‘ ہی ان کے معنے تصور کر لیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ ان کو ’’کوڈ ورڈز‘‘ کی حیثیت دے سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس کے حق میں ہوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ ان کو جانتے تھے۔ اس صیغۂ راز اور سرِّ الٰہی سے ہمیں کیا فائدہ؟ ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان حروفِ مقطعات کے ذریعے بندوں کو ’تفویض و تسلیم‘ کی تعلیم دی گئی ہے کہ آپ صرف اس لئے ان کو ’حق اور برحق‘ مانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے ’والحکمة فيه ھو كمال النقياد والطاعة ‘ تفویض و تسلیم مقامِ عبدیت کے عظیم شعائر میں سے ہیں۔ اس لئے ایمان بالغیب کو مکارمِ ایمان میں ایک