کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 14
مرضاھا وحبت اولاھا علي اخراھا فقال اجرك سيدك کہ ان بکریوں (رعایا) کے چرانے کے لئے رب نے آپ کو نوکر رکھ لیا ہے۔ اگر آپ نے ان کو وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی اور ان کے بیماروں کی دوا کی اور ان کا نظم قائم رکھا تو ان بکریوں کا مالک آپ کو مزدوری دے گا۔ قیادت کی ذمہ داری کو صحیح طور نباہنے کا پتہ دراصل قائد کی نجی زندگی سے چلتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی نجی زندگی میں جو خدمات انجام دے سکتا ہو، وہ تو انجام نہ دے، لیکن لوگوں سے کہے کہ مجھے اقتدار دو تاکہ میں تمہاری خدمت کروں۔ جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے سربراہ، ارکانِ مجلس اور حکامِ اعلیٰ کے سلسلہ کے یہ وہ خصائص ہیں‘ جن کو ملکی دستور کی تدوین میں اوّلیں حیثیت حاصل ہونی چاہئے، جب آپ ہر چھوٹی بڑی شے بیان کرتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے کارکنانِ قضا و قدر کے بارے میں اسلام نے جن اسلامی اخلاق ایمانی اقدار، اعمالِ صالحہ اور طہارتِ نفس کا ذِکر کیا ہے، دستور میں ان کو آئینی حیثیت نہیں دیتے اور اس کا آپ کو کیوں یقین نہیں آتا کہ جب تک حکمران طبقہ حاملِ قرآن نہیں ہو گا، وبالِ جان بنا رہے گا اور بہتر دستور بھی ہاتھ آگیا تو محض ان کی وجہ سے رائیگاں جائے گا؟ ملتِ اسلامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنی قیادت کے لئے اسلامی شرائط اور معیارات پر تول کر لینے کی ریت ڈالے تاکہ جو بھی ہمارے مقدّر کا تارا بنے، ہماری بگڑی بنا دے۔ اگلے شمارہ میں ہم اسلامی ریاست کے سربراہوں کے اسلامی اخلاق اور طرزِ حیات کے نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ یہ صرف باتیں نہیں، ہماری تاریخ اور روایات ہیں جن کا اب ہم مکرر مشاہدہ کرنے کی جائز خواہش رکھتے ہیں۔