کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 13
سنیے! خالص غلامی اور بے آمیز فرمانبرداری صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔
حق کے ساتھ فیصلے کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ اگر کوئی اختلاف رونما ہو تو اس کا علاج افہام و تفہیم سے کرو، پکڑ دھکڑ سے نہیں:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَي اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ (النساء)
یعنی اگر تمہارے درمیان جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔(وہاں سے جو رہنمائی ہو، اس کے مطابق کام کیا کرو)
اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ غلط طریقہ سے کسی کو راستے سے ہٹانے کی کوشش نہ کیا کرو:
وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ (بنی اسرائيل)
کہ جس جان کو اللہ نے حرمت والا بنایا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو۔
کیوں کہ جو لوگ اپنی برتری کے خبط میں مبتلا ہیں اور فساد کے متلاشی ہیں، وہ دنیا ہی میں نہیں، آخرت میں بھی ناقابلِ التفات ہیں:
تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا
کہ آخرت کا یہ گھر ان کے لئے جو زمین میں برتری کے خبط میں مبتلا نہیں ہیں اور نہ ہی تخریب کار ہیں۔ (القصص)
بلکہ انجام ان کا اچھا ہے جو پرہیزگار ہیں۔ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ
قیادت کا صحیح معنوں میں مستحق وہی شخص ہے جو مندرجہ بالا احکامِ الٰہی پابند اور ان (بیان کردہ) شرائط اور معیارات پر پورا اترتا ہو۔
علاوہ ازیں ایک قائد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے دماغ میں شاہزادگی کا خمار نہ ہو بلکہ وہ صدق دل سے ملک و ملت کا خادم ہو اور اپنے تئیں ایک نوکر تصور کرتا ہوں۔
ابو مسلم خولانی (ف 62ھ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (ف 60ھ) سے ملنے آئے تو ’السلام علیک یا ایھا الجیر‘ کہ (اے نوکر تم پر سلام ہو) کہا، لوگوں کو حیرت ہوئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق اور تائید فرمائی۔ اس پر حضرت خولانی نے کہا:
انما انت اجیر استاجرک رب ھذہ الغنم لرعايتھا فان ھنأت جرباھا وداويت