کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 12
یہ سن کر ہرقل بولا: ’صدقت‘ کہ تو نے سچ کہا! حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: الولایۃ لھا رکنان (۱) القوۃ (۲) ولامانة، فالقوة في الحكم ترجع الي العلم بالعدل بتنفيذ الحكم، والامانة ترجع الي خشية الله (الاختيارات العلميه ص ۱۹۷) کہ حکومت کے دو (۲) ستون ہیں۔ قوت اور امانت، حکم میں قوت کے یہ معنی ہیں کہ عدل اور قانون کے نفاذ کا علم اور فہم ہو اور امانت کی بنیاد یہ ہے کہ دل میں خشیتِ الٰہی ہو۔ عدل اور قانون کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ عادل اپنی یا قوم کی خواہشِ نفس کے اتباع سے گریز کرتا ہو اور صرف حق کے اتباع کا دم بھرتا ہو جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: فَاحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَاءَھُمْ ط (المائدة) کہ اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو اور ان کی خواہش نفس کی پیروی سے پرہیز کرو۔‘‘ نیز فرمایا: فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰي فَيُضِلُّكَ (ص۲) کہ حق کے مطابق لوگوں کے درمیان حکومت کرو، خواہش کا اتباع نہ کرو، وہ تجھے گمراہ کر دے گی۔‘‘ اس لئے کہ حکومت صرف اسی کی ہے: اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلهِ (يوسف) حكومت الله كے سوا كسی كے لئے نہيں ہے۔ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (اعراف) یہ بھی یاد رکھو کہ مخلوق بھی اسی (اللہ) کی ہے اور حکم بھی اسی اللہ کا چلنا چاہئے۔ اور ملک بھی اسی کا ہے: اَللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ (فاطر) اللہ ہی تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہت اور ملک ہے۔ اس میں آمیزش بالکل نہ ہونی چاہئے: اِنَّا اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ اَلَا لِلهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ (الزمر) کہ ہم نے برحق کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے تو خالص خدا ہی کو غلامی ملحوظ رکھئے!