کتاب: محدث شمارہ 25 - صفحہ 10
وَلَا تُطِيْعُوْآ اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ 0 اَلَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ 0 ’’اور ان مسرفین اور عیاش لوگوں کی اطاعت سے پرہیز کرو جو تخریب پسند ہیں (یعنی قیادت عیاش اور تخریب پسندوں کے حوالے بھی نہ کرو) اور اصلاحِ احوال کی طرف توجہ نہیں دیتے۔‘‘ چنانچہ فرمایا: وَمَنْ یُّشَاقِقْ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْھُدٰي وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰي وَ نُصّلِه جَھَنَّمَ (النساء) کہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرے وار مومنوں کی دوستی چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی دھکیل دیں گے جدھر کو وہ چل پڑا ہے پھر اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔ ظاہر ہے جو شخص جہنمی ہے وہ لائقِ اتباع اور مومنوں کی قیادت کا اہل کیسے ہو سکا ہے؟ قومی نمائندوں کے نعرے ایک ڈھونگ ہے۔ خداوندِ کریم کا واضح ارشاد ہے کہ: اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِه اَوْلِيَاءَ کہ تمہارے رب کی طرف سے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اس کا اتباع کرو اور اسے چھوڑ کر دوستوں اور رفقاء کا تباع نہ کرو۔ لیکن اس کے باوجود ان (قومی نمائندوں) کو دستور سازی کے اختیارات کا حق دے کر ان کو خدا کے متوازی بٹھا دیا گیا ہے حالانکہ یہ سب مل کر بھی حکمِ خداوندی کو رد نہیں کر سکتے: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارْ کہ اے باران جیل! (بھلا سوچو تو سہی) کہ یہ مختلف خدا اچھے ہیں یا زبردست اور وحدہ لا شریک لہ۔ اللہ‘‘ ’’ارباب متفرقون‘‘ سے مراد سربراہِ مملکت، مشیرانِ کار اور احکامِ اعلیٰ ہیں۔ نیز آج کل کے یہ نمائندے بھی ’’اربابِ متفرقون‘‘ میں داخل ہیں، جن کی وجہ سے علاقائی قیادتوں اور اطاعتوں کے انتشار نے وباء کی صورت اختیار کر لی ہے اور ان کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کے ’’کلمۂ جامعہ‘‘ اور ’’وحدتِ ملّی‘‘ کے