کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 9
کتاب وحکمت افادات : حافظ ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحریر: مولانا عبد الغفار حسن سورہ فاتحہ کے بعض اہم تفسیری نکات سورہ فاتحہ کئی اہم او ربنیادی مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے تین نام بیان ہوئے ہیں جو کہ تمام اسماءِ حسنہ اور صفاتِ الٰہیہ کے مرکز و محور قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ وہ تین اسماء یہ ہیں : اللہ، ربّ او ررحمن۔ یہ سورت الوہیت، ربوبیت اور رحمت کا مظہر ہے۔ الوہیت کا مفہوم ﴿اِيَّاکَ نَعْبُدْ﴾ سے واضح ہوتا ہے۔ ربوبیت ﴿اِيَّاکَ نَسْتَعِيْنُ﴾ میں پنہاں ہے اور صفت ِرحمت ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ﴾ سے آشکار ہوتی ہے۔ پھر لفظ ’حمد‘ ان تینوں اسماء پرحاوی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنی اُلوہیت، ربوبیت اور رحمت میں محمود اور قابل ستائش ہے۔ اس سورت میں آخرت، جزا و سزا، اللہ تعالیٰ کے اس دن حاکم مطلق ہونے اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کا تصور بھی دیا گیا ہے جوکہ آیت ﴿مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ سے واضح ہے۔ اس سورت میں نبوت و رسالت کا اثبات بھی مختلف پہلوؤں سے کیا گیا ہے : اولاً : اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔[1]وہ اپنے بندوں کو دنیوی اور اُخروی مصالح بتائے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کی صفت ِربوبیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان تمام چیزوں سے آگاہ کرے
[1] یعنی ان کو لاتعداد نعمتوں سے پرورش کرنے والا ہے جن میں سے سب سے اعلیٰ و ارفع نعمت قرآن اُتارنا، رسولوں کا بھیجنا اور اپنے بندوں کو نورِ ہدایت اور علم و حکمت سے سرفراز کرنا ہے اور اسی کی ذات اپنے علم، حکمت اور قدرت سے تمام جہانوں کی تدبیر کئے ہوئے ہے۔ اسی کی ذات حکیم و خبیر ہے اور اپنے تمام بندوں پر غالب ہے۔ اس کی ذات آسمان اور زمین کو مسخر کئے ہوئے ہے اور وہی اپنی قدرت سے زمین و آسمان کی کچھ چیزیں انسان کی نشوونما کے لئے مسخر کردیتا ہے تاکہ وہ ترقی کے درجات طے کرتے ہوا انسانیت کے درجہ کمال تک پہنچ سکے اور ربّ کی نعمتوں اور اس کی بے پناہ رحمت کو یاد کرکے اس کا شکر بجا لاتا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آیاتِ کونیہ میں سوچ بچار اور آیاتِ علمیہ میں غوروتدبر کرتے ہوئے اپنی روحانیت کیلئے تزکیہ و تصفیہ کا سامان بہم پہنچاتا رہے۔ اس کی محبت اور لگاؤ کا مرکز صرف خدا ہی کی ذات ہو کہ جس نے اپنے بے پناہ احسانات اور نعمتوں سے اسے نوازے رکھا اور دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی عطا کی۔ تمام بندے اس لحاظ سے صرف اسی کے محتاج ہیں اور صرف خدا ہی ایک بے نیاز ہستی ہے۔ عبودیت کے ان مظاہر کے ساتھ ایک مخلص بندہ برابر کمالات کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اعلیٰ علیین میں نیکوکاروں کے ساتھ جگہ پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دے، آمین!