کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 5
دعوت دی جاتی تو کیا انسانی حقوق کمیشن اس طرح سکوت اختیار کرتا؟
قارئین کرام! ہم ابھی سے پیشین گوئی کرتے ہیں کہ این جی اوز اور انسانی حقوق کمیشن کے محققین اس واقعہ کی ’تحقیق‘ فرمانے کے بعد اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ڈالیں گے اور پادری صاحب کے ”اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ‘ کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کریں گے۔
بعض افراد یہ کہہ کر ولیم مسیح پادری کا دفاع کرسکتے ہیں کہ اس نے یہ گستاخانہ کلمات بعض مسلمان علماء کی کتابوں سے نقل کئے ہیں ۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہرگز گوارا نہیں کریں گے کہ یہ اقتباسات سیاق وسباق کے بغیر نقل کئے گئے ہیں او ریہ کہ ان علما پر یہ صریحاً بہتان تراشی ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ مثلاً اشتہار میں مولانا اشرف علی تھانوی کا نامِ گرامی بھی لکھا گیاہے مگر ان کی کسی تصنیف کاکوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ مولانا تھانوی کی تصانیف، ان کے عقائد اور حب ِرسول کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والا شخص ولیم پادری کی ان سے منسوب اس طرح کی کسی بھی بات کو جھوٹ اور افترا پردازی ہی قرار دے گا۔ اسی طرح ’تقویة الایمان‘ سے بھی ایک آدھ جملہ جو نقل کیا گیا ہے، مصنف کے پیش نظر اس کا وہ مفہوم ہرگز نہیں تھا جو افترا پرداز پادری نے سمجھا ہے یا دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
علم غیب کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف علما کی جانب سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف تعبیرات پیش کی گئی ہیں ۔ موحد علما کا ایک گروہ علم غیب کو اللہ تعالیٰ سے ہی مخصوص قرار دیتا ہے، اس میں کسی مخلوق کی شراکت کو وہ شرک قرار دیتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے علما بالخصو ص بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں علم غیب کے ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ، مگر وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ نبی اکرم کو یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی دیا گیا تھا، ان کا اپنا نہیں تھا۔ گویا حقیقی عالم غیب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس موضوع پر ’تقویة الایمان‘ میں مفصل بحث ملتی ہے۔ مسیحی پادری کا علمی درجہ اس قدر نہیں ہے کہ وہ ان دقیق بحثوں کو سمجھ پاتا، البتہ اپنے خبث ِباطن کے اظہار کے لئے اس نے ایک آدھ جملہ یا چند الفاظ عبارت سے الگ کرکے اپنے واہیات دعویٰ کی تائید میں پیش کردیئے ہیں ۔
پادری ولیم مسیح نے جو منطق، استدلال، عقلیات جیسی علمی صلاحیتوں سے بے بہرہ لگتا ہے، اپنے تئیں چند الفاظ نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ”ہرپوشیدہ بات کا علم رکھتے تھے مگر مسلمانوں کے پیغمبر کے پاس ہر پوشیدہ با ت کا علم نہیں تھا۔“ نہیں معلوم، اس کوتاہ فکر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کیا بھی ہے یا نہیں ۔ اگر وہ ان کی سیرت کے متعلق واجبی علم بھی رکھتا تو یہ لغو دعویٰ کبھی نہ کرتا۔ کیا اسے اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام