کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 4
کسی اور نبی کی تحقیر و تضحیک اور تخفیف کو حد درجہ قابل اعتراض سمجھتے ہیں ۔ حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”تم مجھے دیگر انبیاء پر فضیلت نہ دو…مجھے حضرت موسیٰ پر فضیلت نہ دو “ وغیرہ (متفق علیہ) مگر پادری ولیم مسیح نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے ’دعوت‘ کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ ایک ناپاک جسارت ہے اور ۲۹۵۔سی کے قانون کے مطابق توہین ر سالت کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں ۲۹۵۔ سی کے مخالفین یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس قانون کے تحت ۹۹ فیصد مقدمات غلط درج کرائے جاتے ہیں ، اس کے پس پشت محرکات ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں ، اکثر مسلمان عیسائیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے اس طرح کے بے بنیاد مقدمات درج کراتے ہیں وغیرہ۔ ۲۹۵ سی کے قانون کے خلاف چیخ و پکار کرنے والی حقائق ناآشنا این جی اوز پادری ولیم مسیح کی اس جسارت کے متعلق سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ دیگر این جی اوز کو فی الحال ہم ایک طرف رکھتے ہیں ، انسانی حقوق کمیشن پاکستان جو پاکستان میں این جی اوز کے نیٹ ورک کے لئے ’کوآرڈی نیٹر‘ کاکام کررہا ہے، ہم کمیشن کے چیئرمین افراسیاب خٹک سے دریافت کرتے ہیں : ۱۔ کیا ولیم مسیح پادری کی طرف سے جاری کردہ مذکورہ بالااشتہار کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی نہیں ہے؟ ۲۔ کیا اس اشتہار سے کروڑوں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کیا گیا؟ ۳۔ اگر یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، تو کیا انسانی حقوق کمیشن نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے؟ اگر پہلے نہیں کیا، تو اب نشاندہی پر وہ کیا اس مکروہ فعل کی مذمت کریں گے؟ ۴۔ اگر ولیم مسیح پادری کے توہین آمیز اشتہار پر اس کے خلاف قانونِ توہین رسالت کے تحت مقدمہ درج کرایا جائے، تو کیا ا س پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ ۵۔ کیا پاکستان کی اقلیتوں کو اس قدر آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ مسلم اکثریت کے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائی کی جسارت کرتی پھریں ؟ ۶۔ کیا انسانی حقوق کمیشن صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے، جب کسی اقلیت کے حقوق کی پامالی کا خدشہ ہو، کیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی حفاظت اور وکالت اس کمیشن کے دائرہ کار سے باہر ہے؟ ۷۔ اگر کمیشن کے دائرہ کار میں مسلمانوں کے حقوق شامل نہیں ہیں ، تو اس کمیشن کا نام اقلیتی حقوق کمیشن کیوں نہیں رکھا جاتا؟ ۸۔ اگر کسی مسلمان کی طرف سے عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے لئے اس طرح کے اشتہار کے ذریعے