کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 27
بیگمات بھی زنا کاری کی دلدل میں بری طرح مبتلا تھیں اور بدکاری کی اس حد تک رسیا تھیں کہ اپنے ناپاک منصوبے میں ناکامی کی صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کوبے گناہ پابند ِسلاسل کرا دیا تھا۔ چنانچہ قرآن حکیم نے شہادت دی کہ اس زناکاری اور فحاشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے معاشرے پر اللہ تعالیٰ نے سات سال تک قحط مسلط کئے رکھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إذا ظهر فی قوم الزنا والربا فقد احلوا با نفسهم عتاب اللّٰه (ترغیب وترہیب)
”جس قوم میں زناکاری اور سود خوری عام ہوجائے وہ اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کرلیتی ہے“
آج کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ’لا اله الا اللّٰه‘ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والے وطن عزیز پاکستان میں اس گھناؤنے جرم کے لئے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں اور اخبارات کے کئی صفحات حیا سوز تصاویر اور بدکاروں ، اداکاروں کے انٹرویوز سے سیاہ ہوتے ہیں اور رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا نے نکال دی ہے اور اس دفعہ تو جشن بہاراں کے نام پراور پھر بسنت کے موقع پر سرکاری سرپرستی میں جس طرح بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا گیا ہے، وہ نہایت ہی باعث شرم اور قابل مذمت ہے!!
اور اس سے بڑھ کردکھ کی بات یہ ہے کہ اہل علم ودانشور حضرات کوقومی ہیرو قرار دینے کی بجائے اداکاروں اور بدکاروں کوبڑے خوشنما اور پرکشش نام اور ایوارڈ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ایک اسلامی ملک میں جب علم وہنر اور تعلیم وتہذیب کی یوں بے حرمتی اور بے توقیری کی جائے اور گویوں اور بھانڈوں کو ثقافتی سفیر ،محبت کے راہی اور دیگر خوشنما نام دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو پھر ایسے ملک میں فتنے فساد، معاشی بدحالی، اندرونی اور بیرونی جھگڑے، خشک سالی اور قحط ہو نے میں چنداں حیرانگی نہیں ۔
شرک وبدعت : جو قوم خالق حقیقی اللہ ربّ العزت کو چھوڑ کر غیروں کی عبادت کرنے لگے اور مصائب و آلام کے رفع کے لئے غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز اور چڑھاوے چڑھانے لگے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو بھی قحط سالی اور دیگر سنگین مصیبتوں میں مبتلا کردیتے ہیں ۔
کفارِ قریش کے سامنے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت پیش کرتے ہوئے انہیں خدائے واحد کا پرستار بننے کی دعوت دی تو انہوں نے حسدوعناد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ معبودوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط مسلط کردیا اور وہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگئے حتیٰ کہ وہ آپس میں لڑ لڑ کر مرنے لگے۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ مردار چمڑے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے ان میں سے ہر شخص کو مصیبت اور بھوک کی شدت کی وجہ سے زمین و آسمان کے درمیان دھواں نظر آنے لگا۔ (صحیح بخاری: حدیث ۴۳۲۵)