کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 26
آج اگر ہم اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہرایک پر واضح ہوجاتی ہے کہ ہم نے من حیث القوم زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے دین سے بغاوت کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ تہذیب و تمدن، معاشرت ومعیشت، سیاست و عبادت، الغرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہم پر یہود و نصاریٰ اور ہندوانہ تہذیب کے اثرات کی چھاپ نظر آتی ہے۔ جبکہ اللہ کے نازل کردہ دین پر عمل پیرا ہونے سے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَلَوْ أنَّهُمْ أقَامُوْا التَّوْرَاةَ وَالاِنْجِيْلَ وَمَا أنْزِلَ إلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أرْجُلِهِمْ﴾ (المائدة:۶۶) ”اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور جو کچھ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے“ تفسیر احسن البیان میں ہے کہ اوپر کا ذکر یا تو بطورِ مبالغہ ہے یعنی کثرت سے اور انواع و اقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ِضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے یعنی زمین اس بارش کواپنے اندر جذب کرلیتی اور خوب پیداوار دیتی ننتیجۃً شادابی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا۔ انبیاء کرام کی تکذیب: جو قوم انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کرنا شروع کردے تو ایسی قوم پر بھی اللہ تعالیٰ قحط مسلط فرما دیتے ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جب قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کردی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر قحط مسلط کردیا اور ان پر طوفان کا عذاب بھیج کر انہیں نیست و نابود کردیا : ﴿فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلًا أوْدِيَتُهُمْ قَالُوا هٰذا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ به رِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ ألِيْمٌ، تُدَمِّرُ کُلّ شَيْئٍ بِأمْرِ رَبِّهَا فَأصْبَحُوْا لَا يُرَیٰ إلاَّ مَسَاکِنُهُمْ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ﴾ (الاحقاف:۲۴، ۲۵) ”جب وہ دور سے بادل آتا دیکھتے تو کہتے کہ یہ بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔ دراصل یہ بادل وہی چیز ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے۔ اس میں ایسی ہوا ہے جس میں بڑا دردناک عذاب ہے جواپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر رہی ہے اور وہ ایسے ختم کردیئے گئے کہ ان کے مکانات کے علاوہ کوئی شے دکھائی نہیں دیتی تھی، مجرموں کی قوم کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں ۔“ زنا کاری اور فحاشی کاعام ہوجانا:جس معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی بدکاری اور زنا کاری عام ہوجائے وہ معاشرہ بھی عذابِ الٰہی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم نے سورہٴ یوسف میں اہل مصر کی اخلاقی بدحالی کانقشہ پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ مصر کے عوام تو عوام رہے وہاں کے حکمرانوں کی