کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 25
لم يمطروا (تلخیص الحبیر، ابن ماجہ: ۴۰۰۹) ”جو قوم ناپ تول میں کمی بیشی کرتی ہے، اس کو قحط سالی کی سخت مصیبتوں میں گرفتار کرلیا جاتاہے اور ظالم حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں اور جو لوگ اپنے مال سے زکوٰة روک لیتے ہیں ، ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں ۔ اگر جانور نہ ہوتے توبالکل بارش نہ ہوتی۔“ زکوة ادا نہ کرنا:امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ جو شخص نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا، میں اس کے خلاف جنگ کروں گا۔کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں اسلام کے اس اہم رکن یعنی ادائیگی زکوٰة سے فرار ہونے کی قانونی گنجائش موجود ہے اور درہم و دینار کے پجاری اسلام کے منافی اس قانون کا سہارا لے کر زکوٰة نہ دے کر غضب ِالٰہی کو دعوت دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰة نہ دینے والوں کے لئے دنیا میں قحط اور خشک سالی جیسی نہایت سنگین سزا تیار کر رکھی ہے اور آخرت میں عذاب جہنم کی شدید وعید سنائی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ ألِيْمٍ ، يُوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْویٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ﴾ (التوبہ:۳۴، ۳۵) ”اور جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو جس دن اس خزانے کو نارِ دوزخ میں گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ا ن کی پیشانیاں ،پہلو اورپیٹھیں داغی جائیں گی ( اور ان سے کہا جائے گا ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کررکھا تھا، اپنے خزانوں کا مزہ چکھو!“ صحیح مسلم ، کتاب الزکوٰة کے باب اثم مانع الزکوٰة میں حدیث ہے کہ ”جو شخص اپنے مال سے زکوٰة نہیں دیتا، قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا کر اس کے دونوں پہلو،پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کا یہی حال رہے، اس کے بعد اسے جنت یا جہنم میں لے جایا جائے گا ۔ “ اس لئے دنیا میں قحط اور خشک سالی اور دیگر عذابوں سے بچنے اور آخرت میں نارِ دوزخ سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے مال و دولت سے زکوٰة عشر اور صدقہ و خیرات نکالنا ضروری ہے۔ اللہ کے دین سے روگردانی : جو قوم اللہ کے نازل کردہ دین سے روگردانی کو اپنا شیوہ بنا لے، اللہ ان کے مادّی وسائل کی کثرت و فراوانی کے باوجود ان کی گذران تنگ کردیتے ہیں ۔فرمانِ الٰہی ہے : ﴿وَمَنْ أعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْکًا﴾ (طہٰ:۱۲۴) ”جس نے میری کتاب (قرآن) سے منہ موڑ لیا (دنیا میں ) اسکی معیشت تنگ کردی جائے گی“