کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 22
﴿وَمَا أصَابَکُمْ مِنْ مُصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أيْدِيْکُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ کَثِيْرٍ﴾ (الشوری:۳۰)
”اور( لوگو) تم پر جو مصیبت آتی ہے تو تمہارے ہاتھوں نے جو کیا اس کی سزا میں اور بہت (سے قصور) معاف کردیتا ہے۔ “
ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ دنیا میں خشک سالی، قحط، سیلاب، زلزلے ، طوفان ، اندرونی و بیرونی جھگڑے اور فسادات یا معاشی و اقتصادی اور اخلاقی بدحالی کی کوئی بھی شکل ہو، یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہے اور یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں انسان پر اس لئے آتی ہیں کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور انہیں اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنے حالات میں تغیر پیدا کرے۔
آج اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی برائی نہیں جسے ہم نے من حیث القوم سینے سے نہ لگایا ہو۔ شرک و بدعات، توہمات اور خرافات، بے حیائی ، فحاشی اور عریانی ، ذخیرہ اندوزی اور سود خوری، بددیانتی اور کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اورقتل و غارت گری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہم گم ہیں ۔ سود جسے قرآن نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، اسے عام آدمی سے لے کر حکومت تک کوئی بھی چھوڑنے کو آمادہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے دعوے ہیں کہ ہمیں خوشحالی اور ترقی اسی راستے پر چلنے سے ہی ملے گی۔ چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی میں جیسے جیسے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں ، بدتر سے بدترین نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے مغربی اَقوام کی طرزِ زندگی اپنانے کے چکر میں دھکے کھا رہے ہیں ۔ ہر آنے والی نئی حکومت اپنی طرف سے نئے نئے معاشی و اقتصادی پروگرام لے کر آتی ہے لیکن حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے جارہے ہیں ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، والی صورتحال ہے۔
یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے باوجود بھی ہم اللہ اور اس کے پیارے رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور بغاوت والی روش چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز خشک سالی اور قحط کی لپیٹ میں ہے۔ زمینیں ویران اور بستیاں غیر آباد ہوچکی ہیں ۔ بعض علاقوں میں انسان اور جانور پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے ہیں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب مختلف نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے :
﴿فَکُلًا أخَذْنَا بِذَنْبِه فَمِنْهُمْ مَنْ أرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِه الارْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلٰکِنْ کَانُواأنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ﴾ (العنکبوت:۴۰)
”آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی (قومِ عاد) اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا (قومِ ثمود) اور کسی کوہم نے زمین میں دھنسا دیا (قارون) اور کسی کو غرقِ آب کردیا (فرعون، ہامان اور قومِ نوح) …اللہ تو ان پر ظلم