کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 20
جواب:اس صورت میں اَخیافی (ماں جائے)بھائی محمد خان اور بہن نذیراں بی بی کے لئے کل ترکہ سے ایک تہائی ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿فَإِنْ کَانُوْا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَهُمْ شُرَکاَءُ فِیْ الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصَی بِهَا اَوْ دَيْنٍ غَيْرُ مُضَارٍّ﴾ ( النساء: ۱۲)
”(اخیافی بھائی) اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔(یہ حصے بھی) بعد اداءِ وصیت و قرض، بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو( تقسیم کئے جائیں گے)۔
واضح ہو کہ بایں صورت لڑکے اور لڑکی کے لئے حصہ برابر ہے۔ اور باقی ماندہ جائیداد کے حقدار بحیثیت ِعصبہ فضل، عبدل، شفیع تین چچا زاد بھائی ہیں ۔ بصورت ِنقشہ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں
تصحیح مسئلہ کل حصص : ۹
اَخیافی بھائی اَخیافی بہن اَخیافی بہن چچازاد چچا زاد چچازاد
محمدخان نذیراں بی بی رشیداں بی بی فضل عبدل شفیع
۱ ۱ ۱ ۲ ۲ ۲
سوال: محمد شفیع اور رضیہ بی بی کا نکاح ۸/ فروری ۱۹۹۸ء کو ہوا۔ اورموٴرخہ ۱۵ /جون ۱۹۹۹ء کو بچہ پیدا ہوا۔ محمد شفیع موٴرخہ ۴ جولائی ۱۹۹۹ء کو فوت ہوگیا۔ رضیہ بی بی اور بچہ اپنے والدین کے پاس ہیں ، اب
الف: سامانِ جہیز کس کا حق ہے؟
ب: محمد شفیع نے جو زیور رضیہ بی بی کو بوقت شادی ڈالا تھا وہ کس کا حق ہے؟
ج: بچہ شرعی طور پر کس کے پاس رہے گا؟
جوابات: (الف) جہیز کا سامان چونکہ والدین کی طرف سے عورت کوملتا ہے۔ اس لئے یہ خالصتہً اس کا حق ہے، شوہر کو اس میں کوئی دخل نہیں ۔
(ب) شوہر کی طرف سے بیوی کو عطا کردہ زیور عرفِ عام میں اگر تو عورت کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے تو المعروف کالمشروط کے اصول پر عورت اس کی مالکہ ہوگی۔
بصورتِ دیگر اس کو شوہر کے ترکہ میں شمار کرکے کل جائیداد کا آٹھواں حصہ بیوہ کو دیا جائے کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾ (النساء:۱۲)
(ج) ماں کا حق تربیت سب سے زیادہ ہے جب تک وہ آگے نکاح نہیں کرتی۔ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ میرا بچہ اس کے باپ نے چھین لیاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تو نکاح نہ کرے، اس کی زیادہ حقدار ہے۔ (بحوالہ مسنداحمد، سنن ابوداود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے)