کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 16
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں تکبیر اولیٰ کے بعد نمازِ جنازہ میں ثنا پڑھنا جنازہ کی سنتوں میں شمار ہوتا ہے حالانکہ سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جو شے ثابت ہے، احناف اس کا انکار کرتے ہیں اور جو ثابت نہیں ، اس کے اثبات کی ناکام سعی کرتے ہیں تلک إذا قسمة ضیزی! علامہ ابن ہمام فتح القدیر (۱/۴۵۹) میں لکھتے ہیں کہ ”جنازہ میں فاتحہ نہ پڑھی جائے اِلا یہ کہ ثنا کی نیت ہو، قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔“ عجب تضاد ہے، خود ہی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابی کا قولِ ’سنت‘ مسند مرفوع کے حکم میں ہے جس کانبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اتصال ہوتا ہے جیسا کہ ابھی گزراہے پھر خود ہی اس قاعدہ کو مقامِ بحث میں ترک کردیا ہے۔ نیز ہدایہ میں ہے کہ میت کی چارپائی اُٹھاتے ہوئے چاروں اَطراف سے پکڑا جائے۔ سنت میں اسی طرح آیا ہے۔ علامہ ابن ہمام نے اس پر دلیل یہ قائم کی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو جنازہ کے پیچھے لگا، اسے چاہئے کہ سب طرفوں سے پکڑے فإنه من السنة ، فوجب الحکم بأن هذا هو السنة ”سنت طریقہ یہی ہے (ابن ماجہ، بیہقی) یعنی اس طریقہ کار کو اختیار کرنا ہی سنت ہے۔ “ غور فرمائیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول من السنة کو یہاں مرفوع کے حکم میں قرار دیا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول إنھا سنة سے عدمِ اعتناء کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے مذہبی تعصب کے علاوہ او رکیا نام دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اثر ابن مسعود رضی اللہ عنہ منقطع ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر صحیح بخاری وغیرہ میں ۔ محترم! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اتنے بڑے محقق کی بات پر تعجب کا اظہار نہ کیا جائے تو اور کیا جائے؟ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ قلم سے بعض سخت جملے صادر ہوئے۔ عافانی اللہ۔ لیکن بنظر انصاف حقائق تک رسائی حاصل کرنا سب کا فرض ہے۔ حنفی علماء میں علامہ عبدالحئ لکھنوی رحمہ اللہ کافی حد تک انصاف پسند گزرے ہیں ۔ عمدة الرعایہ (۱/۲۵۳) میں انہوں نے جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے مسلک کو دلیل کے اعتبار سے قوی قرار دیا ہے اور موطا ٴامام محمد کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ ”فاتحہ پڑھنا ہی اولیٰ ہے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ “ بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ متاخرین علماءِ احناف نے جو جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے تو علامہ حسن الشرن بلالی نے اس کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے: النظم المستطاب بحکم القراء ة فی صلاة الجنازة بأم الکتاب (التعلیق الممجد: ص۱۶۵) اور جن علماءِ احناف نے فاتحہ پڑھنے کی تاویل یوں کی ہے کہ بطورِ ثنا فاتحہ پڑھی جائے، ان کی تردید میں مولانا لکھنوی فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو بہت سی مسنون قراء ات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر یہ دعویٰ فی نفسہ باطل ہے کیونکہ نیت کا تعلق توباطن سے ہے جس