کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 15
پھر میت کے لئے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف پہلی تکبیر میں کرے۔‘‘ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ إسنادہ صحیح ”اس کی سند صحیح ہے۔‘‘ (۴) سنن ترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ پڑھایا تو فاتحہ پڑھی۔ طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ”إنه من السنة أو من تمام السنة“ کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ سنت ہے، یا اس سے سنت کی تکمیل ہوتی ہے۔“ پھر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنازہ کو نماز سے موسوم کیا گیا ہے جس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین ہیں : ”من صلی علی الجنازة…“،”صلوا علی صاحبکم“، ”صلوا علی النجاشی“ اِمام بخار ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کہا ہے حالانکہ اس میں رکوع ہے نہ سجود، اس میں کلام نہ کرے اور اس میں تکبیر اور تسلیم ہے۔“ پھر یاد رہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ”لا صلاة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب“ کا عموم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ اس بحث میں جواہم شے قابل التفات ہے، وہ یہ ہے کہ صحابی کا کسی فعل یا عمل کو سنت قرار دینے سے کیا وہ واقعی سنت ِنبوی قرار پائے گا؟ اس سے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأصحاب النبی لا يقولون بالسنة والحق إلا لسنة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، إن شاء اللّٰه ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت اور حق کا اطلاق صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہی کرتے تھے “ اور امام نووی نے المجموع(۵/۲۲۴) میں اسی کو صحیح مذہب قرار دیا اور کہا ہے کہ اصول میں ہمارے اصحاب میں سے جمہور علماء اور دیگر اُصولی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ حنفی نے التحریر میں اسی بات کو قطعی قرار دیا ہے ۔ اس کے شارح ابن امیر حاج کہتے ہیں : ہمارے متقدمین اصحاب کا یہی قول ہے۔ صاحب ِمیزان، رافع اور جمہور محدثین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔(۲/۲۲۴) پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اثباتِ سنت کے باوجود حنفیہ کا اس صحیح حدیث پر عمل نہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق ہے۔ موطأ امام محمد میں ہے:”لاقراء ة علی الجنازة وهو قول أبی حنيفة“ جنازہ میں عدمِ قراء ت ہے او رامام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین حنفیہ نے جب بنظر غائر اسی کو صحیح پایا اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے مسلک کو مرجوح دیکھا تو اس کی تاویل انہوں نے اس طرح کی کہ فاتحہ کی قراء ت کا جواز تو ہے بشرطیکہ نمازی دعا اور ثنا کی نیت کرے۔ یہ محض اس زعم کی بنا پر ہے کہ حدیث اور قولِ امام میں تطبیق ہوسکے۔ گویا کہ امام صاحب کا قول دوسری ایک حدیث ہے حالانکہ یہ شرط(تاویل) فی نفسہ باطل ہے۔ جب ایک حدیث ثابت ہے تو پھر عمل اسی پر ہونا چاہئے۔