کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 12
جبکہ اس میں یہ پانچ اُمور پائے جائیں : استقامت، منزلِ مقصود تک پہنچانا، اس کا قریب ہونا، گزرنے والوں کے لئے اس کا کافی وسیع ہونا، منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کا تعین ہونا۔ لفظ صراط میں یہ پانچوں باتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ اس کی صفت استقامت سے اس کا قریب ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خط ِمستقیم دو نقطوں کے درمیان قریب ترین خط مانا گیا ہے۔ ذرا سا بھی ٹیڑھا پن اسے لمبا کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کی صفت استقامت سے اس کا منزل مقصود تک پہنچانا ظاہر ہوتا ہے اورپھر اس کا تمام خلائق کے لئے نصب کیا جانا اس کی وسعت و ہمہ گیری کا تقاضا کرتا ہے او راس کا یہ وصف کہ یہ رستہ انعام کئے گئے لوگوں کا ہے، گمراہ اورمغضوب علیہم کا نہیں ، اس بات کا یقین کرتا ہے کہ یہ راستہ ہی درحقیقت سیدھا او رسچا راستہ ہے۔ صراط کی اضافت کبھی اللہ کی طرف جاتی ہے کیونکہ وہی اس کا نصب کرنے والا ہے جیسا کہ فرمایا گیا:﴿وَأنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْمًا﴾ ”اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے“ ایک دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَإنَّکَ لَتَهْدِيْ إلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ صِرَاطِ اللّٰهِ﴾ ”اور (اے رسول!) تم اللہ کے سیدھے راستے کی طرف بلاتے رہو“ او رکبھی اس کی اضافت بندوں کی طرف جاتی ہے جیساکہ سورہ فاتحہ میں بیان ہوا اوریہ اس لئے کہ بندے ہی اس پر چلیں گے، انہی کے لئے وہ نصب کیا گیا اور وہی اس پر گزرنے والے ہیں ۔ ثامنًا: منعم علیھم کے ذکر او رمغضوب علیہم اورضالین کے گروہ سے انہیں ممیز کرتے ہوئے…لوگ حق کی معرفت اور اس پر عمل کرنے کے لحاظ سے ان تین فرقوں میں تقسیم کئے گئے ہیں اور وہ اس طرح کہ انسان یا تو حق کی معرفت رکھتا ہوگا یا نہیں او رپھر حق کی معرفت رکھنے والا یا تو اس پر عامل ہوگا یا اس کا مخالف ہوگا۔ کوئی بھی مکلف فرد ان تین اقسام سے باہر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے حق کی معرفت رکھنے والا عالم باعمل شخص منعم علیھم کے گروہ میں سے ہے۔ یہ شخص مفید علم اور نیک عمل کے ساتھ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا رہتا ہے : ﴿قَدْ أفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا﴾(الشمس :۹)”جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، وہ کامیاب ہوگیا“ حق کی معرفت رکھنے والا عالم لیکن عمل سے محروم ہوائے نفس کا تابع شخص ’مغضوب علیہم‘ کی فہرست میں داخل ہوتا ہے۔ رہا حق کی معرفت سے کورا شخص تو اس کا شمار ’ضالین‘ (گمراہوں ) میں ہوگا۔ مغضوب علیہ شخص عمل کی ضلالت (گمراہی) کے باعث ضال بھی ہے اور ضال شخص عمل کی راہ دکھانے والے علم سے محرومی کے باعث مغضوب علیہم میں بھی شمار ہوتا ہے۔ غرضیکہ ان دونوں میں سے ہر ایک پر ضال اور مغضوب علیہ کا وصف صادق آتا ہے۔ اِلا یہ کہ معرفت ِحق کے بعد عمل میں کوتاہی کرنے والا غضب کا زیادہ مستحق ہے۔اسی لئے یہود کے بیان میں بار بار اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا : ﴿بِئْسَمَا اشْتَرُوْا بِهِ أنْفُسَهُمْ أنْ يَکُفُرُوْا بِمَا أنْزَلَ اللّٰهُ بَغْيًا أنْ يُنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ