کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 11
ہوسکتی اور ان کے حصول کے بعد انسان حق کے مدارج کوتفصیلی طور پر جان لیتا ہے اور کھلے و چھپے اسی کا ہورہتا ہے۔ اس کے تمام اعمال، تمام اِرادے، تمام اقوال تاحیات دائرہ حق سے باہر نہیں نکلتے۔ یہاں اس بات کی ضرورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ہر حال میں ہدایت پانے کی دعا کیوں کرتے رہنا چاہئے او رکہنے والوں کے اس قول کا بودا پن بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے ہوئے بھی ہدایت کے طلبگار کیوں رہیں ؟ وہ اس طرح کہ ہمارے علم میں آئی ہوئی حق باتوں کے مقابلہ میں ایک بڑا حصہ ہمارے لئے نامعلوم ہے۔اور ایسی باتوں کا تو شمار ہی نہیں جنہیں ہم مجمل طور پر جانتے ہیں لیکن تفاصیل سے بے خبر ہیں ۔ الغرض ہم مکمل ہدایت کے محتاج ہیں ۔یہ تمام اُمور کسی کو حاصل ہوبھی جائیں تو اس کا ہدایت کے لئے سوال کرنا ہدایت پر قائم و دائم رہنے کے لئے ہوتا ہے۔ ہدایت کا سب سے آخری مرتبہ قیامت کے دن جنت تک پہنچنے کے لئے پل صراط کو بآسانی پار کرنے کی ہدایت مانگنا ہے۔ اسی لئے جس شخص کو دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں کی معرفت صراطِ مستقیم کی ہدایت حاصل ہوگئی وہ یقینا آخرت میں پل صراط کا رستہ بھی پالے گا اور جس قدر وہ اس دنیا میں خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر ثابت قدم رہا ہوگا، اسی قدر آخرت میں جہنم کے اوپر قائم کئے ہوئے پل صراط پر بھی وہ ثابت قدم رہے گا اورجس تیزی سے وہ دنیا میں اس راستے کے نشیب و فراز سے گزرتا چلا گیا تھا، اسی تیزی سے وہ پل صراط بھی پار کر لے گا۔ کئی تو ایسے ہوں گے جو بجلی کی طرح اسے پار کرجائیں گے اور کئی آنکھ جھپکنے کے وقفہ میں ، کئی ہوا کے ایک جھونکے کی طرح تو کئی سواری کی مانند، کئی دوڑتے نظر آئیں گے تو کئی معمولی چال چلتے ہوئے ، کئی گھٹنوں کے بل چلتے ہوں گے تو کئی لنگڑاتے ہوئے اور کئی بیڑیاں پہنے ہوئے رینگتے نظر آئیں گے۔ غرضیکہ بندہ اس دنیا میں اپنی چال ڈھال سے آخرت کے ان مراحل کا بآسانی اندازہ کرسکتا ہے اور یہی عادلانہ فیصلہ ہے: ﴿هَلْ تُجْزَوْنَ إلاَّ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (النمل:۹۰) ”تمہارے کئے کابدلہ ہی تمہیں دیا جائے گا۔“ بندے کو یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کون سے شکوک و شبہات ہیں جو اس دارِفانی میں اس کے رستے کی آڑ بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہی بندھن قیامت کے دن پل صراط کے دونوں طرف آہنی کنڈوں کی طرح اسے نوچتے اور آڑے آتے دکھائی دیں گے :﴿وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيْدِ﴾ (فصلت: ۴۶) ”اور تیرا ربّ بندوں پر ظلم کرنے والانہیں “ الغرض طلب ِہدایت ہر خیر کے حصول او رہر شر سے سلامتی کو سموئے ہوئے ہے۔ سابعًا: نفس مسئول یعنی صراطِ مستقیم کی معرفت سے پتہ چلا کہ ایک رستہ ’صراط‘ تب ہی ہوسکتا ہے