کتاب: محدث شمارہ 248 - صفحہ 10
اور ایسا نہ ماننے کی صورت میں اس کی اس صفت ِربوبیت پر حرف آتا ہے۔ ثانیًا :”اللہ‘ کا لفظ ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بس اسی کی ذات ہی قابل عبادت ہے اور ظاہر ہے کہ بندے اس کی عبادت کا طریقہ اسی کے بھیجے ہوئے ر سولوں کے سوا اور کسی ذریعہ سے جان نہیں سکتے۔ ثالثًا: لفظ ’رحمن‘ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی صفت ِرحمت اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ دینے اور کمال تک پہنچنے کے ذرائع سے بے خبر رکھنے کے منافی ہے۔ جو شخص لفظ ’رحمن‘ کی حقیقت جان لیتا ہے، اس سے یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ اس کی صفت ِرحمت بارش کے برسانے ، پودوں کے اُگانے اور بیج کے نکالنے سے زیادہ انبیاء کے بھیجنے اور کتب ِسماویہ کے اُتارنے کی مقتضی ہے۔ جسم سے زیادہ روح رحمت خداوندی کی محتاج ہے۔ جن لوگوں کے دل و دماغ پر پردے پڑ چکے ہیں ، وہ اس لفظ سے صرف جانوروں اور چوپاؤں کی زندگی ہی اَخذ کرتے ہیں لیکن اہل فکر و دانش اصل حقیقت کی تہ تک پہنچتے ہیں ۔ رابعًا: ﴿يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے اَعمال کی جزا و سزا دے گا۔ انہیں ان کی نیکیوں پر ثواب اور برائیوں پر سزا دے گا لیکن اللہ تعالیٰ کسی پر حجت قائم کرنے سے پہلے گرفت نہیں کرتا اور یہ حجت اس نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر قائم کردی ہے اور انہیں کی آمد کے بعد اس دن کی نوبت آئے گی کہ تمام نیکوکاروں کو نعیم اَبدی سے نوازا جائے گا اور تمام گنہگاروں کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔ خامسًا: ﴿إيَّاکَ نَعْبُدُ﴾کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت وہی ہوسکتی ہے جس سے اللہ خود راضی ہو۔ جہاں تک اس کے شکر بجا لانے ، ا س سے محبت رکھنے اور اس کی خشیت طاری کئے رکھنے کا تعلق ہے تو عبادت کا یہ مفہوم معقول ہے۔ لیکن عبادت کے اصل طریقے کی معرفت اس کے رسولوں کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عقل سلیم رسولوں کے بھیجے جانے کو اسی طرح تسلیم کرتی ہے جس طرح کہ خود اللہ تعالیٰ کے وجود کو۔ اسی لئے رسول کا انکار کرنے والا درحقیقت رسول کا منکر نہیں ہوتا بلکہ مرسل یعنی اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہوتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسول پر ایمان نہ لانے کو خدا پرایمان نہ لانے کے ہم معنی قرار دیا ہے۔ سادسًا: ﴿إهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ﴾ کے جملے سے پتہ چلتا ہے کہ ہدایت، بیان اور رہنمائی کا نام ہے جس کے بعد توفیق الٰہی اور اِلہام کا درجہ آتا ہے۔ بیان اور رہنمائی کا حصول رسولوں ہی کے واسطے سے ہوسکتا ہے او رایسا ہونے کے بعد خدائی توفیق شامل حال ہوجاتی ہے۔ ایمان دل میں جاگزین ہوکراسی کا ایک جزو بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہ دو الگ الگ ہدائتیں ہیں جن کے بغیر دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل نہیں