کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 9
ان کے عبادت خانوں کی حفاظت کا معاہدہ کیا گیا۔ آہستہ آہستہ اسلام زور پکڑتا گیا اور ملکی داخلی تبدیلی کے نتیجے میں مصر میں چند صدیوں کے بعد اسلامی حکومت قائم ہوئی جیسا کہ آگے ذکرہوگا۔
معاہدے کی صورت میں مغلوب ہونے والے اہل خیبر کی زمین کا معاملہ بھی اس بارے میں کافی دلیل ہے کہ خیبر جب فتح کیا گیا تو اہل خیبرسے انکی ساری زمینیں چھین کر مالِ غنیمت کا حصہ نہیں بنائی گئیں بلکہ ایک حصہ شرائط ِ معاہدہ کے تحت انکے قبضہ میں ہی رہنے دیا گیا جس میں وہ کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ بعدازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں حدیث ِنبوی کی پیروی کرتے ہوئے ان یہودیوں کوجلاوطن کیا ۔
در اصل بی بی سی کے مبصرین اسلام کی درست ترجمانی کی بجائے اسلامی شریعت کو توڑ مروڑ کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ سادہ مسلمانوں کودہوکہ دیا جاسکے۔ اگر یہ لوگ واقعتا اسلام کی درست ترجمانی کرنا چاہیں تو اس کے لئے زیادہ واضح مثال دورِ عمر رضی اللہ عنہ کی بجائے خود دورِ نبوی میں موجود ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب مقابلے میں آنے والے مفتوح ہوئے ہوں نہ کہ کسی معاہدے کی بنا پر انہوں نے اِطاعت اختیار کی۔ اس کی بہترین مثال فتح مکہ ہے۔ اگر بتوں کو محفوظ رکہنے اور ان کا اعزاز و اکرام برقرار رکہنے کے لئے اسلام آیا ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر ضرور بتوں کے بچاؤ اور ان کی حفاظت کی تدبیر/ رعایت فرماتے۔ کیونکہ فتح مکہ کے موقع پرمفتوحین سے، دیگر مفتوحین کے مقابلے میں مختلف سلوک والی کئی رعایتیں کی گئی تہی جن میں چند ایک یہ ہیں :
1۔ مکہ کو جنگی یورش کے نتیجے میں فتح کیا گیا لیکن کسی کو لونڈی غلام نہ بنایا گیا۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو ’عتقاء‘ کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔
2۔ مکہ کی زمین کو فاتحین میں تقسیم نہ کیا گیا۔
3۔ اہل مکہ کے سازوسامان کو مالِ غنیمت بنا کر اس کے حصے بھی تقسیم نہیں کئے گئے۔
4۔ اہل مکہ کے سردار ابوسفیان کو سزا دینے کی بجائے ان کے گھر کو جائے امان قرار دیا گیا۔
5۔ مکہ والوں کے ظلم و ستم اور متعدد جنگی تدابیر میں ملوث ہونے کے باوجود ان سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔
فتح مکہ اور بت شکنی کی مہم
فتح مکہ میں دوسری جنگوں کے بالمقابل متعدد مخصوص اَحکام کی رعایت کی گئی۔ اگر اس بات کی کوئی گنجائش ہوتی کہ وہاں بتوں کو بچایا جاسکتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کا بھی حکم فرماتے۔ لیکن آپ نے جنگ سے فارغ ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ بیت اللہ کے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں تشریف لے گئے اور خو داپنے دست ِمبارک سے 360 بتوں سے بیت اللہ کوپاک کرنا شروع کیا۔ بیت اللہ میں بعض بت