کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 8
اَثرات مرتب ہوتے ہیں ۔چنانچہ ’اُردو دائرہ معارف ‘میں ابو الہول کا ترجمہ ’خوف کا باپ‘ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ”عرب اسے وہم آمیز خوف کے ساتہ دیکھتے تھے۔‘‘(جلد1، ص 931) جیتے جاگتے انسانوں کے نقش اور مجسّمے میں بڑا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ممیوں کوبتوں اور مجسّموں کے حکم میں نہیں لایاجاتا۔ فرعونِ موسیٰ کی ممی آج تک بطورِ عبرت موجود ہے اور ابوالہول کے بارے میں کسی نے بت کا سا حکم اختیار کرنے کا خیال پیش نہیں کیا۔ بعض لوگوں کو اس کے باوجود یہ خیال گزرا کہ لوگ اس سے بت پرستی میں مبتلا ہوسکتے ہیں تو انہوں نے انفرادی طور پر اس کو منہدم کرنے کی کوششیں کیں ۔ تاریخ نگار المقدسی کے بیان کے مطابق انہی کوششوں سے 9855ء میں اس کا چہرہ صحیح سالم نہ رہا۔ مقریزی نے بیان کیا ہے کہ 782ھ/1378ء میں شیخ محمد صائم الدہر نے مجسّموں کو ختم کرنے کی مہم میں اس کوبھی توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوا۔بعض موٴرخین کے نزدیک اس کی ناک کا بہت مختصر ہونااور چہرے کامسخ ایسی ہی کوششوں کی بنا پر ہے۔ مصر کی فتح … معاہدھ صلح کے ذریعے بعض لوگوں نے اپنی بات میں رنگ بھرنے کے لئے مصر کی فتح کو دورِنبوی کا واقعہ بتلایا ہے لیکن یہ صریح تاریخی مغالطہ ہے کیونکہ مصر دورِ فاروقی میں حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں 20 ہجری میں خلافت ِاسلامیہ میں داخل ہوا۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بی بی سی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مصر فتح کیا گیا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مصر فتح ہو کر اسلامی خلافت میں شامل نہیں ہوا جس طرح دوسرے علاقے مفتوح ہوتے ہیں بلکہ مصر معاہدہ صلح کی صورت میں خلافت ِاسلامیہ کا حصہ بنا۔ مفتوح ہونے والے اور معاہدے کی صورت میں اسلام لانے والے ہر دو سے غالب آنے والے کا برتاؤ مختلف ہوتاہے۔ معاہدے کی صورت میں غلبہ پانے والے معاہدہ کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں ۔ ا س بنا پر بالفرض اگر ابوالہول کا مجسمہ ایک بت بھی ہوتا تو ممکن تھا کہ معاہدہ کی شرائط کی پاسداری میں اسے باقی رہنے دیا جاتا۔ چنانچہ مستند کتب ِتاریخ میں ان شرائط معاہدہ کا تذکرہ یوں ملتا ہے بسم اللّٰه الرحمن الرحيم ، هذا ما أعطى عمرو بن العاص أهل مصر من الأمان على أنفسهم وملّتهم وأموالهم وكنائسهم وصُلُبِهم وبرهم وبحرهم لا يدخل عليهم شيىٴ من ذلك ولا ينتقض (النجوم الزاہرة فى ملوك مصر والقاہرة : 1/25) ”بسم اللہ الرحمن الرحیم ، یہ وہ عہد نامہ ہے جس کی رو سے عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے اہل مصر کی جانوں ، اَدیان ، اَموال ، کنیساؤں اور ان کی صلیبوں اور ان کے بحر وبر کو اَمان دی۔ ان چیزوں کے بارے میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی اور اس عہد نامہ کو توڑا نہیں جائے گا… الخ“ اس عہدنامہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصر اسلامی قلمرو میں ’اہل ذمہ‘ کی حیثیت سے 20 ھ میں داخل ہوا اور