کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 7
کے اس مہم کو بند کروا دیا“ (بحوالہ المواعظ والا اعتبار للمقریزی: ص113) ”یہی کوشش بعد ازاں سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیٹے عثمان نے بھی کی۔ اس نے پتھر توڑنے والوں کی جمعیت اکٹھی کی، اور فوج کو بھی اس میں شریک کیا۔ 8 ماہ یہ لوگ اس مہم میں لگے رہے لیکن مال اور تدبیر کے بیش بہا نقصان کے پیش نظر آخر کار اس کو ترک کردیا۔‘‘ (ص115،121) ان میں سے ایسے بت جو توڑے جاسکتے تھے، انہیں خلیفہ مامون نے طویل محنت و مشقت کے بعد منہدم کروادیا۔ منہدم ہونے والے ان بتوں میں وہ عظیم الجثہ زنانہ مجسمہ بھی شامل تھا جودریائے نیل کے دوسرے کنارے فسطاط میں نصب تھا۔ کتب ِتاریخ میں اس کے بارے میں جوحالات بیان کئے گئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مجسمہ غالباً اسیس (Isis) دیوی اور اس کے بچے ہورس (Horus) کا تھا ۔ اس بت کی پشت دریائے نیل کی طرف تھی۔ اسے دریائے نیل کی طغیانی سے بچانے والا بت تصور کیا جاتاتھا۔ اس بت کو توڑ کر اس کے پتھر مسجد کی تعمیر میں لگا دیئے گئے“ (ايضاً:ص118) کتب ِتاریخ کے ان اقتباسات سے اہرامِ مصر کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ مصر کے بت اور مجسّمے گرانے کی کوششیں تو کئی بار کی گئیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اب بیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اَہرام مصر کو توڑا پہوڑا گیا ہے۔ کہا جاتاہے کہ اہرامِ مصر کی مکمل دریافت بھی بیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی، جس کے بعد اس میں دفن خزانوں کو لوٹنے کے لئے حرص کے مارے لوگوں میں ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان اَہرام نے بہت افراد کی جانیں بھی لیں اور بہت لوگ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے یہاں سے بڑی تعداد میں مجسّمے نکال کر مصری عجائب گہر اور دنیا کے بڑے میوزیم میں بھی سجائے گئے۔ اب جبکہ وہ مسائل باقی نہیں رہے جن کی بنا پر اہرامِ مصر کے مجسّموں کو توڑا نہ جاسکا تھا تومسلم حکمرانوں میں اطاعت اور اسلام کی پیروی کا وہ جذبہ ہی سرد پڑ چکا ہے اورتمام مسلم دنیا مغرب کے سیاسی یا فکری استعمار کا شکار ہے لہٰذا آج مصر میں یہ مجسّمے بڑی تعداد میں عجائب گھروں کی زینت بنے نظر آتے ہیں ۔ أبو الہول : بی بی سی کی رپورٹ میں ابوالہول (Sphinx)کے مجسّمے کی بات کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے جب مصر فتح کیا تو اس عظیم بت کو منہدم نہیں کیا گیااور وہ بت آج تک باقی چلا آرہا ہے۔ ابوالہول کا مجسمہ 39میٹر اونچا اور 20 میٹر چوڑا ہے، جس کا سر انسان کا اور دہڑ شیر کا سا ہے۔ اس کے بارے میں روایات یہ ہیں کہ یہ صرف ایک مجسمہ نہیں تھا بلکہ اس طرح ایک انسان کو سزا دی گئی تھی کہ شیر کے دہڑ میں اس کے جسم کو چنوا کر اسے قابل عبرت بنادیا گیاتھا۔ تاریخی لحاظ سے یہ مقامِ تعظیم (عبادت ) نہیں بلکہ مقام عبرت ہے۔ کیونکہ یہ کسی بزرگ ہستی کی یاد میں پتھروں کی مورت نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے انسان کو سزا دینے کی یاد گار ہے۔ چنانچہ اس سے تعظیم کے اثرات کی بجائے خوف وہیبت کے