کتاب: محدث شمارہ 247 - صفحہ 6
وقد ذكر أن بعض ملوك الاسلام شرع يهدم بعضها فإذا خراج مصر لا يفىٴ بقلعها وهي من الحجر والرخام وأنها قبور لملوك وكان الملك منهم إذا مات وضع فى حوض من حجارة ويسمى بمصر والشام الجرون وأطبق عليه ثم بنى من الهرم على مقدار ما يرون من ارتفاع الأساس ثم يحمل الحوض ويوضع وسط الحرم ثم يقنطر عليه البنيان ثم يرفعون البناء على المقدار الذى يرونه ويجعل باب الهرم تحت الهرم ثم يحفرله طريق فى الأرض ويعقد أزج طوله تحت الأرض مائة ذراع أو أكثر … الخ
”بعض مسلمان بادشاہوں نے اہرامِ مصر کو منہدم کرنا شروع کیالیکن اس انہدام کے مصارف مصر سے حاصل ہونے والے کل خراج سے بھی زیادہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہرام مصر پتھروں اور عظیم چٹانوں سے تعمیر کئے گئے۔ دراصل یہ شاہانِ مصر کی قبریں ہیں ۔ بادشاہ جب مرجاتا تو اسے پتھروں کے ایک حوض کے درمیان رکہ کر اوپر سے ڈہانپ دیا جاتا(مصر اور شام میں اسے ’جرون‘ کہا جاتا ہے)۔ پھر وہ جتنا بلند چاہتے، ایک مضبوط حصار تعمیر کرتے، پھر اس حوض کو اٹھا کر اس ہرم کے درمیان رکھا جاتا۔ پھر اس کی بنیادوں پر پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جاتا۔ اس کی بنیادیں وہ اس قدر اونچی کرتے جتنا وہ چاہتے۔ ہرم کا دروازہ ہرم کے نیچے کی سمت بنایا جاتا، اس کا راستہ زیرزمین اس قدر طویل کھدوایا جاتا کہ وہ زمین کے اندر100ہاتھ یا اس سے زیادہ گہرا ہوتا۔ ہر ہرم کا دروازہ اسی انداز پر تعمیر ہوتا۔ اور یہ لوگ اس تک پہنچنے کے پرپیچ راستے تعمیر کرتے جب اس سے فارغ ہوتے تو اوپر سے نیچے کی طرف کھدائی کرتے۔ یہ مصری بادشاہوں کی عادت تھی اور اس سے ان کی قوم کی اطاعت پسندی، صبر اور قوت کا پتہ بھی چلتا ہے“
(کتاب المواعظ والاعتبار للمقریزی:1/115)
اس کے اِخراجات اور اس بارے میں کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ ابوالحسن مسعودی نے بھی اپنی کتاب ’اَخبار الزمان‘ میں کیا ہے :
”خلیفہ مامون الرشید جب مصر آیا اور اس نے اَہرام مصر دیکھے تو انہیں منہدم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اسے کہا گیا کہ ایسا کرنابہت مشکل ہے لیکن خلیفہ اپنے عزم پر قائم رہا۔ چنانچہ آگ کے بڑے الاؤ جلائے گئے، سیسہ اور تانبا پگھلایا گیا، لوہاروں او رمعماروں کی ایک بڑی جماعت کو اس کام میں لگایا گیا حتیٰ کہ اس پر بہت سا مال صرف ہوا۔ انہوں نے20 ہاتھ کے قریب دیواروں کی چوڑائی پیمائش کی۔ حتیٰ کہ جب وہ دیوار کے آخر تک پہنچے تو وہاں انہیں بڑی تعداد میں سونے کے سکے ملے، ایک ہزار دینار کے قریب جن میں ہرایک کا وزن ایک اوقیہ تھا۔ مامون ان سکوں کی صفائی اور سونے کا معیار دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ تب اس نے اس مہم پر صرف ہونے والے اخراجات کااندازہ لگایا تو وہ اخراجات متوقع سونے کی مالیت سے بھی کہیں زیادہ تھے۔ مامون شاہانِ مصر کے یہ انتظامات دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا او راس نے یہ سونا ملکی خزانے میں جمع کرا